کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 320
فرمایا:"۔۔۔یہ کہا کرو۔"[1] اور حدیث " لَعَنَ اللّٰهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ " مکی دور کی ہے،اور اس کی دلیل وہ معروف حدیث ہے " كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ،عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا " اور اس میں شک نہیں کہ یہ نہی عام مدینہ منورہ میں نہ تھی،بلکہ مکہ میں تھی کیونکہ لوگ شرک سے نئے نئے نکل رہے تھے،اس لیے تصور نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نہی مدینہ میں ہوئی ہو۔اور آپ کا فرمان ' اى فَزُورُوهَا ' ممکن ہے مکہ میں کہا گیا ہو لیکن خواہ مکہ میں کہا گیا ہو یا مدینہ میں،ہے بہرحال اس نہی کے بعد کا جو مکہ میں تھی۔اس موقع پر مذکورہ بالا حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا (جس میں زیارت قبور کی دعا کا بیان ہے) قابل توجہ ہے۔اگر ہم کہیں کہ حدیث " كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ،عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا" حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بعد کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا منسوخ ہو،مگر یہ انتہائی بعید بات ہے۔ اور راجح یہ ہے کہ آپ نے مکہ میں زیارت قبور سے منع فرمایا،پھر اس مکی دور کے آخر میں یا مدنی دور کی ابتدا میں اجازت دی اور فرمایا ' أَلَا فَزُورُوهَا ' اس تمہید کے بعد اس میں شک نہیں رہتا کہ پہلی نہی عام مردوں اور عورتوں سب کو شامل تھی،اور جب رخصت دی گئی تو بھی مردوں عورتوں کو دی گئی۔تو یہاں دیکھنا چاہیے کہ ۔۔' لَعَنَ اللّٰهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ ' والی حدیث کب کی ہے؟ اگر یہ عورتوں کو اجازت ملنے کے بعد کی ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ عورتوں کے لیے اس مسئلہ میں دو بار نسخ ہوا ۔۔مگر منسوخہ مسائل میں ہمیں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی (کہ کوئی حکم دوبار منسوخ ہوا ہو)۔ اور بالاختصار اس بات سے قطع نظر کہ ' لَعَنَ اللّٰهُ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ ' کا فرمان عورتوں کو مردوں کے ساتھ اجازت کے بعد تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا موقع کون سا ہے،جس میں انہوں نے اجازت طلب کی اور انہیں دے دی گئی؟ کیا یہ ' لَعَنَ اللّٰهُ ' کے بعد تھی یا پہلے؟ اگر کہا جائے کہ یہ اس سے پہلے تھی،اور ہمارے نزدیک یہی راجح ہے،تو ہم کہتے ہیں کہ یہ نہی خاص عورتوں کے لیے تھی،جو قبرستان بڑی کثرت سے اور بار بار جاتی ہیں۔ پھر عورتوں کے لیے زیارت قبور کو بالعموم حرام کیونکر کہا جا سکتا ہے جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہی ہیں،حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی!(محمد ناصر الدین الالبانی ) سوال:کچھ لوگ مزاروں اور اولیاء کی قبروں پر جاتے ہیں،اس بارے میں آپ کیا رہنمائی فرماتے ہیں؟ جواب:ضروری ہے کہ ان لوگوں کو زیارت قبور کے شرعی آداب سکھائے جائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ارشاد فرماتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یوں کہا کریں: (السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ،وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِكُمْ
[1] صحیح مسلم،کتاب الجنائز،ما یقال عند دخول القبور والدعا لاھلہ،حدیث:974 و سنن النسائی،کتاب الجنائز،باب الامر بالاستغفار للمومنین،حدیث:2037 صحیح