کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 318
اور صحیحین میں آیا ہے،انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بیٹے کی قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی اور نوحہ کر رہی تھی۔آپ نے فرمایا:"اللہ کا تقویٰ اختیار کر اور صبر سے کام لے۔" وہ بولی،دور ہو مجھ سے،تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے۔" دراصل وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ پائی تھی۔بعد میں جب اسے بتلایا گیا کہ یہ تو نبی علیہ السلام تھے،تو وہ آپ کے پاس حاضر ہوئی،گویاکہ مر رہی ہو،اسی وجہ سے کہ اس نے آپ کو نامناسب جواب دیا تھا۔وہ آئی اور اجازت مانگی،اسے وہاں کوئی دربان نظر نہ آیا،پھر وہ آپ سے ملی اور بولی:اے اللہ کے رسول!میں آپ کو پہچان نہ پائی تھی،تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:"صبر ہمیشہ صدمے کی ابتدا میں ہوتا ہے۔"[1] الغرض نبی علیہ السلام نے اس عورت پر اس کے نوحہ کرنے پر انکار فرمایا،اپنے بیٹے کی قبر پر آنے سے انکار نہیں فرمایا۔اس سے امام قرطبی رحمہ اللہ نے لیا ہے کہ "نبی علیہ السلام نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبروں پر جاتی ہوں،کیونکہ اس میں اندیشہ ہے کہ وہ اس طرح اپنے شوہر کے حقوق میں قصور کریں،یا آتے جاتے میں بے پردگی کی مرتکب ہوں،یا شرعی محرمات کی مرتکب ہوں جو کبیرہ گناہ ہیں،مثلا نوحہ کرنا،منہ پر طمانچے مارنا اور ندبہ کرنا وغیرہ۔اگر عورت ان افعال سے پرہیز کرے تو اسے زیارت قبور کی اجازت ہے،کیونکہ یہ بھی یاد آخرت کی اسی طرح محتاج ہے جیسے کہ مرد محتاج ہے۔اور امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ "یہی قول اس لائق ہے کہ اس کا عقیدہ رکھا جائے۔" البتہ جنازوں کے ساتھ جانا،تو وہ احادیث جن میں عورتوں کے لیے اس کی منع آئی ہے،ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔اس سلسلے میں دو حدیثیں آتی ہیں۔ایک حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے ہے،اس میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک میت والوں کے ہاں گئی تھیں،جب واپس لوٹیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو کہاں تھی؟ انہوں نے کہا:اہل فلاں کا ایک آدمی فوت ہو گیا ہے،تو میں ان کے ہاں تعزیت کے لیے گئی تھی۔آپ نے فرمایا:شاید کہ تو ان کے ساتھ کدی (قبرستان) بھی گئی ہو گی؟ انہوں نے کہا:اللہ کی پناہ!آپ نے فرمایا:ہاں اگر تو نے یہ کیا ہوتا تو جنت کو نہ دیکھ سکتی حتیٰ کہ تیرے باپ کا دادا اسے دیکھتا (یعنی عبدالمطلب،جو مسلمان نہیں تھا)۔[2] یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔اس مسئلہ میں ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث صحیح ہے
[1] صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب زیارۃ القبور،حدیث:1223۔ صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب فی الصبر علی المصیبۃ عندالصدمۃ،حدیث:926۔ سنن ابی داود،کتاب الجنائز،باب الصبر عند المصیبۃ،حدیث:3124 صحیح،مسند احمد بن حنبل:3؍143،حدیث:12480 صحیح۔ [2] سنن ابی داود،کتاب الجنائز،باب التعزیۃ،حدیث:3123 ضعیف۔ سنن النسائی،کتاب الجنائز،باب النھی،حدیث:1880 ضعیف،مسند احمد بن حنبل:2؍168 ضعیف۔