کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 310
تمہاری ہمت ہو۔" [1] مذکورہ بالا حدیث میں یہی ہے کہ عورتوں کے لیے قبرستانوں میں جنازوں کے پیچھے جانا حرام ہے مگر ان کا نماز جنازہ میں شریک ہونا بالکل جائز ہے،جیسے کہ مردوں کے لیے حکم ہے۔واللہ ولی التوفیق۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:اگر کوئی خاتون فوت ہو جائے،اور اس کے اپنے اقارب نہ ہوں تو کیا دوسرے اجنبی لوگ اسے قبر میں اتار سکتے ہیں؟ جواب:اس میں کوئی حرج نہیں ہے،خواہ اس کے اپنے اولیاء موجود بھی ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لخت جگر کو ان کے غیر محرم لوگوں ہی نے قبر میں اتارا تھا حالانکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (والد) موجود تھے۔[2] (عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا میت کو زندہ آدمی کی طرف سے کوئی نیک کام ہدیہ کیا جا سکتا ہے؟ جواب:(1) ہاں زندوں کی طرف سے میت کو وہ اعمال پہنچتے ہیں،جن کا شریعت میں بیان آیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے،تو اس کے سب اعمال منقطع ہو جاتے ہیں،سوائے تین کے: صدقہ جاریہ،یا کوئی علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو،یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔"[3] علاوہ ازیں اور بھی احادیث ہیں جن میں ہے کہ صدقہ،دعا،حج،عمرہ،اور وہ علم جو مرنے والا اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہو وہ اسے پہنچتا ہے۔لیکن نماز،قراءت قرآن،طواف اور نفلی روزوں کا میت کے لیے ہدیہ کرنا مجھے اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہے۔اس لیے ان کا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"جو کوئی ایسا عمل کرے جس کا ہم نے حکم نہ دیا ہو،تو وہ مردود ہے۔" [4] (عبدالعزیز بن باز)
[1] صحیح بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰه،حدیث:6858۔ صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب توفیرہ صلی اللّٰه علیہ وسلم و ترک اکثار سؤالہ،حدیث:1337۔ السنن الکبری للبیہقی:1؍215،حدیث:970 [2] یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا زوجہ عثمان تھیں۔ ان کو حضرت ابو طلحہ اور ابو ذر رضی اللہ عنہما نے قبر میں اتارا تھا۔ دیکھیے:صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب قول النبی یعذب المیت ببکاء اھلہ علیہ،حدیث:1225،فتح الباری:3؍158،السنن الکبری للبیہقی:4؍53،حدیث:6838۔ [3] صحیح مسلم،کتاب الوصیۃ،باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ،حدیث:1631۔ سنن ترمذی،کتاب الاحکام،باب فی الوقف،حدیث:1376۔ صحیح و سنن ابی داود،کتاب الوصایا،باب فیما فی الصدقۃ عن المیت،حدیث:2880 صحیح۔ و مسند احمد بن حنبل:2؍372،حدیث:8831 اسنادہ صحیح۔ [4] صحیح بخاری،کتاب الصلح،باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،حدیث:2550 و صحیح مسلم،کتاب الاقضیۃ،باب نقض الاحکام الباطلۃ،حدیث:1718 و مسند احمد بن حنبل:6؍146،حدیث:25171 و اسنادہ صحیح۔