کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 309
اس کے بعد گمراہ نہ کر۔" اور یہ سب دعائیں آپ علیہ السلام سے صحیح ثابت ہیں۔اور اگر کوئی دوسری دعائیں بھی کرے تو جائز ہے،مثلا یوں کہے: (اللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ مُحْسِنًا،فَزِدْ فِي إِحْسَانِهِ،وَإِنْ كَانَ مُسِيئًا فَتَجَاوَزْ عَنْ سَيِّئَاتِهِ.) "اے اللہ!اگر یہ نیکوکار تھا تو اس کی نیکیوں میں اضافہ فرما،اور اگر خطا کار تھا تو اس کی غلطیوں سے درگزر فرما۔" (اللّٰهم اغفر له،وثبته بالقول الثابت) [1] "اے اللہ!اسے بخش دے اور قول ثابت کے ساتھ ثابت قدم رکھ (یعنی لا الہ الا اللہ کے ساتھ)۔" پھر چوتھی تکبیر کہے اور قدرے توقف کے بعد دائیں طرف سلام پھیرتے ہوئے 'السلام علیکم ورحمۃ اللہ' کہے۔ اور یہ بھی سنت ہے کہ امام مرد میت کے سر کے سامنے کھڑا ہو اور عورت کے کمر کے بالمقابل ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جناب انس اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔اور یہ جو بعض نے کہا ہے کہ مرد کے سینے کے سامنے کھڑا ہونا سنت ہے اور چاہیے کہ میت کا منہ قبلہ کی طرف کر دیا جائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے متعلق فرمایا ہے: "یہ مسلمانوں کا قبلہ ہے،ان کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی۔" [2] اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی گئی حدیث " نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ۔ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا " کا کیا مفہوم ہے؟ (یعنی ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے منع کیا گیا ہے،مگر واجب نہیں کیا گیا)؟ جواب:معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک خواتین کے لیے جنازوں کے پیچھے جانے کی منع کوئی تاکید نہیں ہے۔ویسے فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آنے والی نہی میں حقیقتا حرمت یعنی حرام ہونے ہی کا مفہوم ہوا کرتا ہے۔آپ کا فرمان ہے: (مَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَاجْتَنِبُوهُ۔ وَمَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ) "جس چیز سے میں نے تمہیں منع کر دیا ہو،اس سے باز رہا کرو،اور جس کا حکم دیا ہو وہ کیا کرو جتنی
[1] المستدرک للحاکم:1؍511،حدیث:1328 السنن الکبری للبیہقی:4؍40،حدیث:6754 [2] ان الفاظ کے ساتھ مجھے روایت نہیں ملی،البتہ بیت اللہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قبلہ کہا ہے۔ دیکھیے:صحیح بخاری،ابواب القبلۃ،باب قبلۃ اھل المدینۃ و اھل الشام،حدیث:384