کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 300
مقیم اس کے پیچھے چار پڑھتا ہے۔[1] (محمد بن عبدالمقصود) سوال:نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:نماز میں بسم اللہ اونچی آواز سے پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے،بلکہ اس کے برعکس یہ ثابت ہے کہ آپ یہ خاموشی سے پڑھا کرتے تھے۔اور اس مسئلہ میں یہ بات ہی زیادہ صحیح ہے۔تاہم امام کے لیے اس قدر جائز ہے کہ بسم اللہ یا دوسری قراءت میں جو نیچی آواز سے پڑھا جاتا ہے اگر کسی وقت کچھ اونچی آواز سے پڑھ لے تاکہ اس کے پیچھے مقتدیوں کو بھی تعلیم و تنبیہ ہو تو جائز ہے۔مگر اسے ہمیشہ اونچی آواز سے پڑھنا اپنا معمول بنا لے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح سنت کے خلاف ہو گا۔(محمد ناصر الدین الالبانی ) سوال:کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی نماز میں جہری قراءت کر لے اور آوازیں اس قدر بلند کرے کہ خود سن سکے جب کہ نماز بھی وہ ہو جس میں قراءت سری ہوتی ہے،یا سنتیں اور نوافل وغیرہ؟ اور مقصد یہ ہو کہ قرآن کریم ترتیل سے پڑھ سکے،اور اس طرح خشوع خوب ہوتا ہے،تلاوت بھولتی نہیں ہے،جبکہ قریب میں کوئی اجنبی مرد یا عورتیں بھی نہیں ہوتے؟ جواب:رات کی نماز میں،خواہ فرض ہوں یا نوافل،قراءت اونچی آواز سے کرنا مستحب ہے،بشرطیکہ کوئی اجنبی مرد اس کی آواز نہ سنتا ہو جس کے لیے اس کی آواز فتنے کا باعث بن سکتی ہو۔اگر جگہ ایسی امن و اطمینان والی ہو تو رات کی نماز میں وہ قراءت جہری کر سکتی ہے۔لیکن اگر ساتھ والوں کو الجھن ہوتی ہو تو اسے خاموشی سے پڑھنا چاہیے ۔ اور دن کی نماز میں اسے قراءت خاموشی سے کرنی چاہیے ۔کیونکہ دن کی نمازیں سب سری ہیں۔آواز بلند کرے بھی تو اس قدر کہ خود سن سکے،اور بس۔دن کی نمازوں میں جہری قراءت خلاف سنت ہونے کے باعث غیر مستحب ہے۔(صالح فوزان)
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ بلاشبہ امام اور مقتدی میں فرض اور نفل کا فرق ہو تو جماعت اور اقتداء میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے کہ شیخ صاحب موصوف نے وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ البتہ سوال میں جو کہا گیا ہے کہ مقتدی کو معلوم ہے کہ یہ نماز پڑھنے والا اپنی فرض نماز کی مؤکدہ سنتیں(سنن راتبہ)پڑھ رہا ہے تو ایسے آدمی کو امام بنانا اور اس کی اقتدا کرنا محل نظر ہے اور درست معلوم نہیں ہوتا۔ اگر کسی سے کسی وقت علم نہ ہونے کے باعث ایسا ہو گیا ہو تو کوئی بات نہیں۔ مگر عمدا جان بوجھ کر ایسا کرنا کسی صورت بھی جائز معلوم نہیں ہوتا۔ فرضوں اور ان کے بعد سنتوں میں یہ جماعت اور انفراد کا فرق اجماعی ہے۔ البتہ تہجد میں یا علاوہ ازیں عام نوافل میں ایسا کیا جائے تو بلاشبہ جائز اور مقبول ہے،جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جماعت نماز تہجد میں،یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک بار ایک شخص کو جو تاخیر سے آیا تھا جماعت کرائی تھی(ابوداؤد،ترمذی)اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اوپر بیان ہوا ہے۔ اور مسائل عبادت میں عمومات سے قیاس کرنا درست نہیں سمجھا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب(عمر فاروق السعیدی)