کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 297
ملتی ہے اس لیے یہ غیر مشروع اور غیر مسنون ہیں۔[1] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:میری اہلیہ ایک صالحہ خاتون ہے،نماز روزے کا خوب اہتمام کرتی ہے،اور ہم اللہ کے مقابلے میں کسی کی صفائی اور پاکیزگی پیش نہیں کر سکتے،مگر علم میں بہت کمزور ہے۔قراءت قرآن اس کی بہت ضعیف ہے۔قیام اللیل میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنے اور قیام کرنے پر اصرار کرتی ہے۔مگر قراءت میں بہت غلطیاں کرتی ہے،حروف اور کلمات تک میں تبدیلی کر جاتی ہے،مثلا (أَلَيْسَ اللّٰهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ﴿٨﴾(التین:95؍8) میں ہمزہ چھوڑ کر پڑھ جاتی ہے ۔۔وغیرہ،تو کیا اس صورت حال میں وہ گناہ گار ہے؟ اور کیا اس کے ذمہ دار افراد بھی اس کے گناہ میں اس کے شریک شمارہوں گے؟ جواب:صحیح حدیث میں آتا ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ: "قراءت قرآن میں ماہر بندہ اللہ کے مکرم صالح اور سفیر فرشتوں کے ساتھ ہو گا،اور جو قراءت میں اٹکتا ہے اس کے لیے دو اجر ہیں۔"[2] تو یہ خاتون جب علمی طور پر پست معیار کی ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اس کے ذمہ دار سرپرست لوگوں پر بھی کوئی وبال نہیں ہے۔تاہم آپ کو حسب امکان کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ اسی قدر قراءت کرے جو اسے اچھی طرح یاد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیء الصلاۃ (نماز بھولنے والے اعرابی) سے فرمایا تھا کہ
[1] راقم مترجم عرض کرتا ہے کہ بلاشبہ ان ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نماز ثابت نہیں ہے اور بعض لوگوں نے مختلف ناموں سے مختلف نمازیں بنا رکھی ہیں اور وہ ان کے پڑھنے پر بہت بڑے بڑے ثواب کی بشارتیں دیتے ہیں۔ مثلا نماز قضائے عمری صلوٰۃ غوثیہ وغیرہ۔ یہ سب سے اصل اور بدعات فی الدین ہیں۔ عمومی معانی و مفاہیم کے پیش نظر اگر کوئی بندہ اپنی کسی دینی و دنیوی غرض سے اللہ کے لیے دن یا رات میں کوئی نفل پڑھے اور دعا کرے اسے کوئی خاص نام مقام متعین نہ کرے،نہ سنت رسول ثابت کرے نہ ہی اس کا ثواب مقرر ومتعین کرے تو اسے بدعت بھی نہیں کہا جا سکتا ہے،جیسے کہ سنن ابی داؤد کی روایت سے امام صاحب رحمہ اللہ کا رجحان معلوم ہوتا ہے: عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ:((كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى))"کہ جب آپ کو اہم کام درپیش ہوتا تو آپ نماز پڑھا کرتے تھے۔" (ابو داود،باب وقت قیام النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم من اللیل،حدیث:1319) امام ابوداود نے اس پر سکوت کیا ہے،اور ان کے قاعدہ کے مطابق یہ حدیث قابل عمل ہے۔ اگرچہ فی الحقیقت شیخ الالبانی کے کہنے کےمطابق یہ ضعیف ہے۔ (مشکوۃ المصابیح،باب صلاۃ التطوع،حدیث:1325) [2] صحیح بخاری،کتاب التفسیر،سورۃ عبس،حدیث:4653 و صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا،باب فضل الماھر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ،حدیث:798 و سنن ابی داود،کتاب سجود القرآن،ابواب فضائل القرآن،باب فی ثواب قراءۃ القرآن،حدیث:1454