کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 288
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن الحکم سے بخاری اور مسند احمد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان لوگوں کو حکم دیا کہ اپنی قربانیاں نحر کر دیں اور اپنے سر مونڈ لیں تو کوئی بھی ان میں سے اپنی جگہ سے نہ ہلا اور آپ علیہ السلام غصے میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی پیروی کریں تو آپ کسی سے کوئی بات نہ کریں بلکہ اپنی قربانی نحر کر دیں اور پھر حجام کو بلا کر اپنے بال منڈوا لیں۔چنانچہ آپ نے ایسے ہی کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے سب صحابہ کرام نے اپنی قربانیاں نحر کر دیں اور اپنے اپنے سر بھی منڈوا لیے۔حتیٰ کہ بقول راوی قریب تھا کہ ہم کہیں ایک دوسرے کو قتل ہی نہ کر بیٹھیں۔یعنی ایک دوسرے کے بال مونڈنے منڈوانے کے لیے ان کا بہت زیادہ ازدحام ہو گیا۔ [1] اسی طرح ایک دوسرا واقعہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں روانہ ہوئے۔چنانچہ آپ نے روزہ رکھا،تو آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا،حتیٰ کہ جب ہم لوگ کراع الغمیم نامی منزل پر پہنچے جو مدینہ منورہ کی نواحی آبادی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ لوگوں کو روزہ رکھنا دشوار ہو رہا ہے،اور وہ آپ کے فعل و عمل کے منتظر ہیں کہ آپ کیا کرتے ہیں۔چنانچہ یہ عصر کے بعد کا وقت تھا اور آپ اپنی سواری پر سوار تھے۔آپ نے پانی کا پیالہ طلب فرمایا،اپنی سواری پر ہی وہ پیالہ اپنی ہتھیلی پر رکھا،جبکہ سب لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے اور آپ نے یہ نوش کر لیا۔مسند احمد میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ "آپ کو کھانے پینے کی حاجت نہ تھی۔" مگر آپ نے یہ سب کیا کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپ کے فعل کی اقتدا کیا کرتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز دو سے زیادہ بار اول وقت سے تاخیر کر کے نہیں پڑھی ہے،حتیٰ کہ آپ کی وفات ہو گئی۔چونکہ صحابہ آپ کے فعل کی اقتداء کیا کرتے تھے،اور بعض اوقات انہیں کوئی مشقت بھی پیش آ جاتی تھی تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ اپنے عمل سے واضح فرما دیں کہ اس مسئلے میں وسعت ہے۔اور یہ عمل بالکل اس عمل کے مماثل ہے کہ آپ ہر نماز کے لیے وضو کیا کرتے تھے،مگر فتح مکہ کے دن آپ نے پانچوں نمازیں ایک ہی وضو سے ادا فرمائیں۔آپ سے کہا گیا،اور یہ کہنے والے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے،اے اللہ کے رسول!آج آپ نے ایسا کام کیا ہے جو پہلے نہ کیا کرتے تھے؟ تو فرمایا کہ میں نے یہ عمدا کیا ہے۔[2] اور اس میں یہی ہے کہ آپ نے ایک وضو سے کئی نمازوں کے درست ہونے کا جواز واضح فرمایا۔
[1] اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلح کے اس فیصلے پر پریشان تھے،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے چارا نہ تھا۔(مترجم) [2] صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب جواز الصلوات کلھا بوضوء واحد،حدیث:277،و سنن ابی داود،کتاب الطھارۃ،باب الرجل یصلی الصلوات بوضوء واحد،حدیث:172 و سنن الترمذی،کتاب ؍ابواب الطھارۃ،باب انہ یصلی الصلوات بوضوء واحد،حدیث:61