کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 281
بددعا دینا جائز نہیں ہے۔ ان ارشادات کی بنا پر امام ابن حزم رحمہ اللہ مسجد میں خریدوفروخت کے حرام ہونے کے قائل ہیں،اور دیگر علمائے کرام مکروہ کہتے ہیں۔اور اصول فقہ میں یہ قاعدہ تکرار کے ساتھ آیا ہے کہ "نہی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔" مگر اس مسئلہ میں جمہور کی دلیل اجماع ہے جیسے کہ حافظ عراقی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ مسجد میں بیع ہو جاتی ہے،اسے توڑنا جائز نہیں ہے۔چنانچہ اس اجماع کی بناء پر وہ کہتے ہیں کہ حدیث میں جو ممانعت آئی ہے وہ تنزیہ کے لیے ہے،تحریم کے لیے نہیں۔اس منع کے بارے میں مسند احمد اور سنن میں جناب عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عبداللہ بن عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خریدوفروخت سے منع فرمایا ہے،اور اس سے بھی کہ اس میں شعر پڑھے جائیں یا گم شدہ چیزوں کا اعلان کیا جائے،اور اس سے بھی کہ جمعہ کے روز مسجد میں حلقے بنا کر بیٹھا جائے۔"[1] یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:کیا ٹیلیفون کی گھنٹی سن کر نماز توڑ دینا جائز ہے؟ جواب:اگر نماز نفل نماز میں ہو تو اس مقصد کے لیے نماز توڑ دینا جائز ہے مگر مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔اور اگر نماز فرض ہو تو نماز توڑنا جائز نہیں ہے،جیسے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴿٣٣﴾(محمد:47؍33) "اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔" ہاں اگر محسوس ہو کہ یہ فون نہ سننے سے کوئی انتہائی شدید نقصان ہو سکتا ہے تو اس صورت میں نماز توڑ دینا جائز ہے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:ایک خاتون کا سوال ہے،کہتی ہے کہ میں نے بعض سے سنا ہے کہ اگر نماز کے دوران میں ٹیلیفون کی گھنٹی بجے تو میں آلہ سماعت اٹھا کر اللہ اکبر کہہ کر اسے رکھ دیا کروں،تو اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ کسی اہم مصلحت کے پیش نظر نماز کے دوران عمومی طور پر کچھ عمل کر لینا جائز ہے،جیسے کہ سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،کہتی ہیں کہ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا جبکہ دروازہ بند تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز پڑھ رہے تھے،اور دروازہ قبلہ کی جانب تھا،تو آپ کچھ چلے اور دروازہ کھول دیا اور پھر اپنی جگہ پر آ گئے۔[2] معلوم ہوا کہ نماز کے دوران آگے پیچھے ہونے جیسا عمل جائز ہے،اور دوسرا جو نماز نہیں پڑھ رہا ہے،نمازی کوئی بات کہے تو بھی جائز ہے۔جس طرح کہ صحیحین میں
[1] سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب التحلق یوم الجمعۃ قبل الصلاۃ،حدیث:1079 و سنن الترمذی،کتاب الصلاۃ،باب کراھیۃ البیع والشراء وانشار الضالۃ والشعر فی المسجد،حدیث:322 و سنن النسائی،کتاب المساجد،باب النھی عن البیع والشراء فی المسجد،حدیث:715 [2] سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب العمل فی الصلاۃ،حدیث:922،و سنن الترمذی،کتاب الصلاۃ،باب ما یجوز من المشی والعمل فی ۔۔ ومسند احمد بن حنبل:6؍31 مسند ام المومنین عائشہ رضی اللّٰه عنہا