کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 279
نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا﴿١١٥﴾(النساء:4؍115) "جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اور دوزخ میں ڈال دیں گے۔وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔" ہر فرقہ اس بات کا مدعی ہے کہ وہ کتاب و سنت پر عامل ہے۔مگر ان کے مابین شدید اختلاف کے ہوتے ہوئے ان کو کتاب و سنت پر کیونکر تسلیم کیا جاتا ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ناممکن ہے کہ آپس کا اختلاف قرآن مجید سے ماخوذ ہو۔ہر وہ جو کتاب و سنت پر ہونے کا مدعی ہے اس پر لازم ہے کہ اپنے دعویٰ کی دلیل پیش کرے اور اس کی یہ دلیل اولین مومنین کی راہ میں ہو سکتی ہے۔(محمد ناصر الدین الالبانی ) سوال:احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بغیر کسی سفر یا بارش وغیرہ کے عذر کے ظہر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھی تھیں۔ایسا کب کیا جا سکتا ہے؟ جواب:یہ حدیث ایسے نہیں ہے جیسے کہ اکثر طلبہ حدیث سمجھتے ہیں کہ وہاں کوئی سبب نہ تھا۔ضروری ہے کہ ایک مسلمان حالت اقامت میں اپنے شہر میں نمازیں اپنے اپنے وقت پر ادا کرے،اور ایسا کرنا واجب ہے۔ہاں جب کوئی عذر یا مشقت درپیش ہو تو اس مشقت کو دور کرنے کے لیے اس کی اجازت ہے کہ نمازیں جمع کر لی جائیں،جمع تقدیم یا جمع تاخیر۔ اس جمع میں شرعی سبب یہی ہے کہ مسلمانوں سے مشقت کا ازالہ کیا جائے۔اور جہاں کوئی مشقت نہ ہو،وہاں نمازیں جمع نہیں کی جا سکتی ہیں۔ضروری ہے کہ پوری حدیث پر عمل ہو۔اور اس حدیث کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کیا ارادہ کیا تھا؟ فرمایا کہ آپ نے چاہا کہ آپ کی امت کو مشقت نہ ہو۔[1] چونکہ آپ علیہ السلام نے اقامت میں جو بارش کے عذر کے بغیر نماز پڑھی ہے تو امت کے لیے رفع جرم (مشقت دور کرنے) کی غرض سے پڑھی ہے۔لہذا اگر کوئی عام واضح عذر نہ ہو،مگر کسی شخص کے لیے شخصی طور پر کوئی عذر ہو تو اس کے لیے یہ ہے کہ ہر نماز کو اپنے اپنے وقت میں پڑھ لے۔[2] بلاوجہ جمع کرنے کا اسے حق نہیں ہے۔(محمد ناصر الدین الالبانی ) سوال:میں جب نماز پڑھ رہا ہوں؍رہی ہوں اور دروازے کی گھنٹی بج اٹھے،اور گھر میں میرے علاوہ اور کوئی نہ
[1] یعنی جمع صوری اختیار کرے۔ واللہ اعلم(سعیدی) [2] صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ المسافرین و قصرھا،باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر،حدیث:705،706۔ سنن الترمذی،ابواب الصلاۃ،باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر،حدیث:187