کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 278
الغرض بدعتی لوگوں کے بقول سلام میں صیغہ خطاب سے آپ علیہ السلام کا حاضر و ناظر ہونا یا آپ کا براہ راست اس سلام یا استغاثہ وغیرہ کو سننا بے اصل ہے۔ان لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ سلام کا یہ صیغہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے آپ کی وفات کے بعد غیب کے صیغہ سے پڑھنا شروع کر دیا تھا،یعنی (السلام على النبى ورحمة ا للّٰه) [1] ذرا غور کیجیے کہ ہم اپنی نسبت سلف (صحابہ) کی طرف کیوں کرتے اور اپنے آپ کو سلفی کیوں کہلاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے۔اور اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی بھی فرمائی تھی کہ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی،سوائے ایک کے باقی سب جہنم میں جائیں گے۔صحابہ نے پوچھا:وہ "کون سا فرقہ ہو گا؟" فرمایا:"وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہوں گے۔" [2] اور ایک صحیح روایت میں یہ لفظ بھی ہیں کہ وہ "الجماعت ہو گی۔" اور یہ سب فرقے جن کے جہنمی ہونے کا آپ نے بتایا ہے،یہ نہیں کہ وہ کتاب و سنت سے کلی طور پر بری ہوں گے،بلکہ ان کی مثال تو ایسے ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے: وكل يدعي وصلاً بليلى وليلى لا تقر له بذاك "ہر ایک لیلیٰ سے وصل کا مدعی ہے مگر لیلیٰ ان میں سے کسی کے لیے بھی اس کا اقرار نہیں کرتی ہے۔" [3] تو سچا ان میں سے صرف وہی ہے جس پر اس حدیث کے الفاظ راست آئیں،جس میں آپ نے ناجی فرقے کے متعلق فرمایا ہے کہ "یہ فرقہ وہ ہو گا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔" آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ "صرف میں ہوں۔" بلکہ آپ نے اس کے ساتھ اپنے صحابہ کو بھی شامل فرمایا ہے۔تو یہ عطف و شراکت کیوں ہے؟ کیا یہ کافی نہ تھا کہ سنت پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دے دی جاتی؟ میرے عقیدہ کے مطابق اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ اور خلفائے راشدین کا ذکر کرنا اس لیے ہے کہ کوئی مسئلہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب انور پر وحی نہ کیا گیا ہو (تو اسے صحابہ اور خلفائے راشدین کے فہم اور ان کے عمل سے اخذ کیا جائے) اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں فرمائی گئی ہے: وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ
[1] ملاحظہ ہو:صحیح بخاری،کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالید،حدیث:6225،فتح الباری،کتاب الاذان،باب التشھد فی الآخرۃ،حدیث:831 [2] سنن الترمذی،کتب الایمان،باب افتراق الامۃ،حدیث:2641 والمستدرک للحاکم:؍1218،حدیث:444 [3] دیوان الحبایۃ:1؍1