کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 277
جواب:چار دن کے عدد کا اقامت کی جگہ یا سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اقامت اور سفر کا تعلق انسان کی نیت اور اس کے حالات کے ساتھ ہے۔مثلا جو کوئی کسی شہر میں تجارت وغیرہ کے لیے آیا ہو،اور اسے معلوم ہے کہ اس کا یہ تجارتی کام چار دن میں مکمل ہو گا،تو اس طرح وہ مقیم نہیں بن جاتا ہے۔کیونکہ اس کی نیت اور اس کا عزم یہاں سے کوچ کر جانا ہی ہے۔[1] (محمد ناصر الدین الالبانی ) سوال:نمازی میں تشہد کے دوران " السلام عليك ايها النبى " کہناہوتا ہے۔کیا اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیے پکارتے اور آپ سے استغاثہ کرتے ہیں؟ جواب:نہیں،اس میں ان لوگوں کے لیے قطعا کوئی دلیل نہیں ہے۔بالخصوص ہم سلفیوں پر اس کا کوئی اعتراض نہیں آتا ہے۔[2] سنن نسائی اور دارمی کی صحیح حدیث ہے: "عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ،قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ لِلّٰهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ،يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ " [3] اور یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ہر جگہ خطاب سنوانے کے لیے نہیں ہوتا ہے،جیسے کہ جامع ترمذی میں نیا چاند دیکھنے کی دعائیں صیغہ خطاب آیا ہے۔ (عَنْ طَلْحَةَ بنِ عُبْيدِ اللّٰهِ رضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ۔ أَنَّ النَّبِيَّ صَلّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وسَلَّم كانَ إِذا رَأَى الهِلالَ قَالَ:« اللّٰهُمَّ أَهِلَّهُ علَيْنَا بِالأَمْنِ والإِيمَانِ۔ وَالسَّلامَةِ والإِسْلامِ۔ رَبِّي ورَبُّكَ اللّٰه) [4] "اے اللہ اس نئے چاندکو ہمارے لیے برکت،ایمان،سلامتی اور اسلام والا بنا،میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔"
[1] علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ وغیرہ اور سلف میں سے بہت سے علماء چار دن تک کے لیے قصر اور اس سے زیادہ کے لیے اتمام کا فتویٰ دیتے ہیں۔ لہذا جب مسافر کسی جگہ چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس کے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ قصر نہ کرے بلکہ چار چار رکعت ادا کرے۔(فتاویٰ ابن باز(اردو)جلد اول،ص:73) [2] یہ صیغہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اشارہ کردہ ہے اور کلمۂ تعبد ہے۔ ہم اسے اسی طرح ادا کرنے کے مکلف ہیں بغیر اس عقیدہ کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں یا آپ کو سنوایا جا رہا ہے۔ یہ تو نمازی کا استحضار ذہنی ہے کہ آپ کے ذریعے اور واسطے سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کرنے کی تعلیم دی ہے اور آپ ہمارے لیے اللہ کے ہاں قرب کا اولین و آخرین واسطہ ہیں۔ آپ کے لیے امت کے افراد جہاں سے بھی درود و سلام بھیجتے ہیں وہ فرشتوں کے ذریعے سے آپ تک پہنچایا جا رہا ہے۔ [3] رواہ النسائی،والدارمی:1؍191 و سندہ صحیح و صححہ الحاکم:1؍550 ووافقہ الذھبی،ماخوذ از مشکوۃ المصابیح بتعلیق العلامۃ الالبانی:1؍291 [4] قال ابو عیسی ھذا حدیث حسن غریب،کتاب الدعوات،حدیث:3451