کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 275
سوال:سنن ابی داؤد میں ہے،حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی،پھر قراءت کی،پھر رکوع کے لیے تکبیر کہی،پھر سمع اللّٰه لمن حمده کہا حتیٰ کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر لوٹ آئی۔"[1] کیا ہم اس حدیث سے یہ معنی لے سکتے ہیں کہ رکوع کے بعد ہاتھ بھی بائیں پر آ جائے،اور انہیں باندھ لیا جائے؟ جواب:اس حدیث میں بیان یہ ہے کہ انسان کا بدن اس طرح ہونا چاہیے جو فطری طور پر معلوم و معروف ہے،اور ہر عضو کی اصل جگہ اس کی اصل وضع اور خلقت کے ساتھ ہے اور وہ ہے ہاتھ چھوڑ کے کھڑا ہونا۔ فائدہ:۔۔۔کوئی عام نص،جس کے کئی اجزاء اور پہلو ہوں،تو اس کے کسی خاص جزوی مسئلہ پر اگر سلف نے عمل نہ کیا ہو تو ہمیں بھی اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا (یہ ایک اہم قاعدہ ہے)۔ اس اہم ترین قاعدہ سے آگاہ نہ ہونے ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بے شمار بدعات نے راہ پا لی ہے،اور جب ان میں غور کرتے ہیں تو ہمیں سنت میں ان کے عمومی دلائل مل جاتے ہیں بلکہ کئی تو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔ مثلا اذان سے پہلے اضافہ جسے کہیں تذکیر بالآیات بھی کہا جاتا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے درود و سلام پڑھا جاتا ہے،ہمیں اس کے بدعت ہونے میں ذرا برابر شک نہیں ہے مگر یہ لوگ ہمیں یہ آیت سنانے لگتے ہیں: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴿٥٦﴾(الاحزاب:33؍56) "اے ایمان والو!نبی پر درود پڑھا کرو اور سلام کہا کرو سلام کہنا۔" ان کا یہ استدلال ایک عام نص سے ہے جس میں نبی علیہ السلام کے لیے صلاۃ و سلام کا وقت یا اس کی جگہ کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام شاطبی رحمہ اللہ نے بدعت کی دو قسمیں بتائی ہیں:ایک بدعت حقیقی اور دوسری اضافی۔
[1] سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ،حدیث:730