کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 274
کی نماز ایسے ہی تھی۔"[1] امام ابن قیم رحمہ اللہ یا بعض دوسرے حضرات سات صدیوں بعد اس میں علت نکالنے لگے ہیں،جبکہ سیدنا ابوحمید ساعدی اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشاہدہ فرمایا تھا،اور وہ ان حقائق سے بخوبی آگاہ تھے۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل آپ کے بڑی عمر یا فربہ ہو جانے کی وجہ سے تھا تو یہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر چھپا نہ رہتا،وہ ضرور اس بات کو سمجھ جاتے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " المجموع شرح المهذب " میں اسی سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ "چاہیے کہ اس سنت کی پابندی کی جائے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔" [2] اور جب کوئی امام جلسہ استراحت نہ کرتا ہو،تو مقتدی کو اپنے امام کی پیروی کرنی چاہیے۔ کیونکہ امام کی پیروی نماز کے واجبات میں سے ہے۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: "إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ،فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا،وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا،وَإِذَا قَالَ:سَمِعَ اللّٰهُ لِمَنْ حَمِدَهُ،فَقُولُوا:رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ،وَإِذَا سَجَدَ،فَاسْجُدُوا،وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا،فَصَلُّوا جُلُوسًا أجمعين" "امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔تو جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو،جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو،اور جب وہ سمع اللّٰه لمن حمده کہے تو تم کہو " ربنا لك الحمد " جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو،اور جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو،اور جب وہ بیٹھ کر پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو۔"[3] (محمد ناصر الدین الالبانی ) اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ امام کی اقتداء لازمی اور ضروری ہے،خواہ اگر وہ کوئی رکن مثلا قیام چھوڑ دے (تو مقتدی کو وہ چھوڑنا ہو گا)۔[4]
[1] سنن الترمذی،کتاب الصلاۃ،باب فی وصف الصلاۃ،حدیث:304 و سنن ابی داود،کتاب الصلاۃ،باب افتتاح الصلاۃ،حدیث:730،و سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ،باب اتمام الصلاۃ،حدیث:1061 [2] المجموع:3؍443 [3] صحیح بخاری،کتاب الاذان،باب انما جعل الامام لیوتم بہ،حدیث:689،بروایت انس بن مالک رضی اللّٰه عنہ و صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،باب ائتمام الماموم بالامام،حدیث:411،414 بروایت ابی ھریرہ رضی اللّٰه عنہ۔ [4] بلاشبہ امام کی اقتداء نماز کے واجبات میں سے ہے۔ مگر بیان کردہ حدیث ہی میں اس متابعت کی تفصیل بتا دی گئی ہے کہ تکبیر کہنے،رکوع میں جانے،رکوع سے اٹھنے وغیرہ میں امام سے سبقت نہیں کی جا سکتی،یہ حرام ااور کبیرہ گناہ ہے،جیسے کہ صحیح مسلم میں صراحت ہے "(يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي إِمَامُكُمْ،فَلَا تَسْبِقُونِي بِالرُّكُوعِ وَلَا بِالسُّجُودِ،وَلَا بِالْقِيَامِ وَلَا بِالِانْصِرَافِ،فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ خَلْفِي)"(صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ،باب تحریم سبق الامام برکوع او سجود و نحوھا،حدیث:961-112-427 ۔)لیکن جن سنتوں کا امام تارک ہو اور مقتدی کے لیے امام پر سبقت کیے بغیر ان کو عمل میں لانا آسان اور ممکن ہو تو اسے ضرور کرنی چاہئیں،مثلا امام رفع الیدین نہ کرتا ہو یا سینے پر ہاتھ نہ باندھتا ہو یا آمین نہ کہتا ہو یا سجدہ میں جانے کے لیے وہ اپنے گھٹنے پہلے رکھنے کا قائل ہو ۔۔ اور ایسے ہی جلسہ استراحت ہے تو ان متواتر سنتوں پر عمل کرنا مقتدی کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے اور امام پر کسی قسم کی سبقت بھی نہیں ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اگر امام کوئی واجب یا رکن وغیرہ چھوڑ دے تو مقتدی اس پر اضافہ نہیں کر سکتا ہے۔ مثلا وہ بھول جائے یا درمیانی تشہد یا ایک رکعت چھوڑ دے،یاد دلایا جائے مگر وہ اپنی یاد پر اعتماد کرتے ہوئے یاد دہانی قبول نہ کرے تو مقتدی کو امام کی اقتداء واجب ہو گی۔ ھذا ما عندی واللّٰه اعلم بالصواب(عمر فاروق السعیدی)علامہ رحمہ اللہ کا یہ جواب ان کے اپنے دوسرے فتوے کی روشنی میں بھی محل نظر ہے۔