کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 251
"میری اس مسجد میں ایک نماز۔مسجد حرام کے علاوہ۔باقی سب مساجد سے ایک ہزار گنا افضل ہے۔" اس لیے ہم کہتے ہیں کہ:مثلا آپ مکہ میں اپنے گھر میں رہائش پذیر ہوں اور ظہر کی اذان ہو جائے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا چاہتی ہوں تو بہتر یہ ہے کہ آپ ظہر کی مؤکدہ سنتیں اپنے گھر میں پڑھیں اور پھر مسجد حرام میں آئیں،وہاں آ کر تحیۃ المسجد ادا کر لیں۔ اور اسی بنا پر بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ مسجد الحرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ میں نمازوں کا جو اضافی ثواب بیان کیا گیا ہے وہ صرف فرض نمازوں سے متعلق ہے کیونکہ فرض ہی مسجدوں میں ادا کیے جاتے ہیں اور نوافل میں یہ اضافی ثواب نہیں ہے۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ اجروثواب فرض و نفل سب نمازوں کے لیے عام ہے۔اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسجد حرام وغیرہ میں پڑھے جانے والے نوافل گھر میں پڑھے گئے نوافل سے افضل ہوتے ہیں۔فضیلت ان نوافل کو ہے جو گھر میں پڑھے گئے ہوں۔لیکن اگر انسان مسجد حرام میں آئے اور تحیۃ المسجد ادا کرے تو یہ تحیۃ المسجد باقی مساجد کے مقابلہ میں ایک لاکھ تحیۃ المسجد سے افضل ہوں گے اور مسجد نبوی میں ادا کیے گئے تحیۃ المسجد مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد سے ایک ہزار گنا افضل ہوں گے۔اور اسی طرح اگر آپ مسجد حرام میں آئی ہیں اور تحیۃ المسجد پڑھ لیے ہیں اور ابھی فرضوں کا وقت نہیں ہوا،تو اگر آپ نوافل پڑھنے لگیں تو یہ نوافل باقی مساجد کے نوافل سے ایک لاکھ گنا افضل اور بہتر ہوں گے اور اسی طرح باقی کو قیاس کر لیجئے۔اور اسی طرح (عورتوں کے لیے) فرض نمازوں کا مسئلہ ہے کہ ان کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ گھروں میں ادا کریں۔ اور قیام رمضان کے مسئلہ میں کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اس میں افضل یہ ہے کہ عورتیں مسجدوں میں آ کر قیام کریں۔اس کے لیے ان کا استدلال اس روایت سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا اور انہیں رمضان کا قیام کروایا۔[1] یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما ایک آدمی کو حکم دیا کرتے تھے جو مسجد میں عورتوں کی امامت کرایا کرتا تھا۔[2] مگر میرے نزدیک اس میں توقف ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما [3] سے منسوب دونوں اثر ضعیف ہیں،ان سے دلیل نہیں لی جا سکتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر
[1] سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ،ابواب قیام اللیل،باب فی قیام شھر رمضان،حدیث:1375۔سنن النسائی،کتاب قیام اللیل وتطوع النھار،باب قیام شھر رمضان،حدیث:1605۔ فضیلۃ الشیخ نےا س روایت کو بالمعنی بیان کیا ہے۔ وللہ اعلم [2] حضرت عمر کا اثر(روایت دیکھئے:مصنف ابن ابی شیبۃ،2؍34،حدیث:6149۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت(اثر)دیکھئے:مصنف ابن ابی شیبۃ،2؍34،حدیث:6152۔ السنن الکبری للبیہقی:2؍294،حدیث:4381۔ مصنف عبدالرزاق:4؍258،حدیث:7722) [3] یہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام ہونا درست ہے جو پیچھے بیان کردہ آثار سے واضح ہے(عاصم)۔ واللہ اعلم