کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 220
خواہ اسے طہر واضح نہ بھی ہو۔کیونکہ یہ خون جیسے کہ بیان کیا گیا ہے اندرونی خرابی کا باعث ہے جو نماز روزے سے رکاوٹ نہیں ہے اور نہ ہی شوہر کے لیے ملاپ سے مانع ہے۔لیکن اگر چالیس دنوں کے بعد آنے والا خون اس کی حیض کی تاریخوں میں آ رہا ہو تو اسے حیض قرار دے کر نماز روزہ چھوڑ دے اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:اگر عورت کو رمضان کے دنوں میں خون کے معمولی نشان محسوس ہوں اور پورے رمضان اسے یہی صورت درپیش رہے تو کیا یہ روزے رکھے اور کیا اس کے یہ روزے صحیح ہوں گے ۔۔؟ جواب:ہاں،اس کے روزے بالکل صحیح ہیں اور خون کے یہ داغ جو اسے محسوس ہوئے ہیں یہ کچھ نہیں ہیں،کیونکہ یہ دوسری رگوں سے ہیں۔اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس قسم کے خون کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ ویسے ہی ہے جیسے کسی کو نکسیر آ جائے اور حیض نہیں ہے۔[1] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایسی عورت کا کیا حکم ہے کہ اسے ولادت کا درد شروع ہوا۔ اور پھر اس وجہ سے دو تین دن نماز نہیں پڑھ سکی،مگر اسے نفاس کا خون بھی جاری نہ ہوا،تو کیا اسے اپنی ان نمازوں کی قضا دینی ہو گی ۔۔؟ جواب؛ ہاں اسے یہ نمازیں بطور قضا پڑھنی ہوں گی۔کیونکہ مرض اور درد وغیرہ کی وجہ سے نماز کی فرضیت نہیں ٹلتی ہے اور پھر اسے خون نفاس بھی شروع نہیں ہوا کہ اسے نفاس کی ابتداء کہہ سکیں۔(عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) سوال:ایک عورت حاملہ ہے اور اسے رہ رہ کر درد اٹھتے ہیں اور خون بھی بہت آتا ہے مگر ولادت نہیں ہوتی ہے،تو اس کے اس خون کا کیا حکم ہے ۔۔؟ جواب:یہ خون خراب اور اندرونی خرابی کے باعث آتا ہے،اسے اس وجہ سے نماز نہیں چھوڑنی چاہیے۔ خواہ جاری بھی رہے۔اسے ہر نماز کے وقت کے لیے نیا وضو کرنا ہو گا۔واللہ اعلم (عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) سوال:اگر کسی عورت کو ولادت سے تین دن یا اس سے زیادہ پہلے ہی خون شروع ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے ۔۔؟ جواب:فقہاء رحمۃ اللہ علیہم کا اس مسئلہ میں کہنا یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو ولادت سے پہلے خون شروع ہو جائے اور تین دن سے زیادہ یہ کیفیت رہے تو یہ اندرونی خرابی کی وجہ سے ہے،خونِ نفاس نہیں ہے اور نہ اس کے لیے نفاس کا حکم ہے۔اور کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ خواہ ولادت کی علامات بھی موجود ہوں۔مگر یہ بات درست نہیں ہے۔بہرحال ان کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس بارے یں عورت یا عورتوں کی عادت اور ان کا عرف کیا ہے،تین دن کی کوئی خاص خاصیت نہیں ہے نہ شرعا اور نہ عرفا۔بلکہ جب اسے نفاس کی ابتدا محسوس ہو کہ یہ وہی خون ہے جو حمل کے ایام میں بطن میں رکا رہا تھا تو یہ نفاس ہی ہو گا،اور نفاس کے مقدمات بعض اوقات تین دن سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ بعض واقعات سے ثابت ہوا ہے۔لہذا اس مسئلے میں عرف (اور عادت) کی
[1] مصنف ابن ابی شیبۃ:1؍89،حدیث:994