کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 200
"یہ لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں،تو بتا دیجیے کہ یہ گندگی ہے۔" سو جب یہ خرابی پائی جائے گی اس کا حکم بھی آ جائے گا،اور جب نہیں ہو گی اس کا حکم بھی نہیں ہو گا۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا ایام حیض کے دوران میں عورت اپنا سر دھو سکتی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے۔ جواب:حائضہ عورت کے لیے اپنے ایام حیض کے دوران سر دھو لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اور جو لوگ اسے ناجائز بتاتے ہیں ان کی بات درست نہیں ہے۔بلکہ جب چاہے اپنا سر یا اپنا جسم دھونا چاہے تو دھو سکتی ہے۔[1] ( محمد بن صالح عثیمین) سوال:مجھے اپنی ماہانہ عادت کے متعین ایام سے تین چار دن پہلے خون آنے لگتا ہے،اس کا رنگ گہرا نسواری سا ہوتا ہے،مجھے معلوم نہیں کہ میں ان دنوں میں طاہر ہوتی ہوں یا غیر طاہر۔میں بڑی تشویش میں رہتی ہوں کہ نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں؟ جواب:جب عورت کو اپنی ماہانہ عادت کے متعلق دنوں کی گنتی یا رنگ یا تاریخ کے اعتبار سے خوب علم ہو تو اسے اس موقعہ پر نماز چھوڑ دینی چاہیے۔ پھر طہر آنے پر غسل کر کے نماز پڑھنی چاہیے ۔اور معروف عادت سے پہلے جو خون آتا ہے تو یہ فاسد مادہ ہوتا ہے،اس وجہ سے یہ عورت نماز روزہ نہ چھوڑے،بلکہ ہر ممکن صفائی کا اہتمام کرے اور ہر نماز کے لیے وضو کر کے نماز پڑھتی رہے،خواہ یہ خون مسلسل ہی آتا ہو۔اس کا حکم مستحاضہ والا ہے۔اگر یہ اس سے پہلے اس خون کی وجہ سے نمازیں چھوڑ چکی ہے تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ یہ اپنے ان دنوں کی نمازیں دہرائے اور ان شاءاللہ اس میں کوئی بڑی مشقت نہیں ہے۔(عبداللہ بن جبرین) سوال:اس عورت کے متعلق کیا حکم ہے جس کی معروف ماہانہ عادت چھ دن ہے مگر کبھی یہ دن بڑھ بھی جاتے ہیں؟ جواب:اگر اس عورت کی عام عادت چھ دن کی ہے مگر کبھی یہ بڑھ کر نو،دس یا گیارہ دن بھی ہو جائیں تو یہ سب حیض کے دن شمار ہوں گے اور یہ خوب پاک صاف ہونے تک نماز نہیں پڑھے گی۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام مخصوصہ کے کوئی دن متعین نہیں فرمائے ہیں۔اور قرآن مجید میں ہے کہ:
[1] راقم مترجم کے سامنے بھی اس سے ملتا جلتا ایک سوال آیا تھا کہ کیا ایام مخصوصہ میں عورت پانی سے استنجا کر سکتی ہے،جبکہ بعض عورتیں استنجا نہیں کرتیں؟ تو فضیلۃ الشیخ کے جواب میں مذکورہ سوال کا جواب موجود ہے کہ:یقینا عورت ان ایام میں پانی سے استنجا کرے،یہ اس کے لیے زیادہ طہارت کا باعث ہے۔ البتہ اطباء کے کہنے کے مطابق زیادہ ٹھنڈا پانی مضر ہو سکتا ہے۔ یا بعض خواتین میں حساسیت زیادہ ہوتی ہے اور وہ پانی کو نقصان دہ پاتی ہیں،تو وہ یقینا اس سے احتراز کریں اور ڈھیلے،کپڑے یا ٹشو سے استنجا کریں۔ اور اگر اس طرح کا کوئی عارضہ نہ ہو تو پانی سے استنجا کرنا چاہئے۔ اور کسی طرح سے بھی استنجا نہ کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے جسم اور کپڑے نجس ہو جاتے ہیں اور یہ کبیرہ گناہ ہے جو عذاب قبر کا باعث ہو سکتا ہے۔ جبکہ خون کا معاملہ فطری ہے،اس پر انسان کا اختیار نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب