کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 197
کہ حیض آتے رہنے یا اس کے بند ہو جانے کے لیے کوئی عمر معین نہیں ہے،لہذا اس عمر کے لیے معروف خون حیض کے احکام ہی ہیں،یعنی ان دنوں میں نماز روزے سے رکی رہے،مباشرت بھی نہیں ہو سکتی،ان ایام کے بعد اسے غسل کرنا واجب ہو گا اور روزوں کی قضا دینی ہو گی وغیرہ۔ اور دوسری جسے پیلا یا میلا پانی آتا ہے،اگر یہ ان تاریخوں میں ہو جو اس کی حیض کی تاریخیں ہوتی ہیں تو یہ حیض شمار ہو گا،اگر ان ایام کے علاوہ میں آئے تو یہ حیض نہیں۔لیکن اگر معروف خون آتا ہے خواہ تاریخیں آگے پیچھے بھی ہوں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ حیض ہی ہو گا،ان دنوں اور تاریخوں میں اسے عبادات سے توقف کرنا ہو گا اور رک جانے کے بعد غسل کرنا ہو گا۔اس مسئلے میں راجح قول یہی ہے کہ حیض آتے رہنے یا اس کے ختم ہو جانے کی کوئی عمر معین نہیں ہے۔اگرچہ فقہ حنبلی میں کہا جاتا ہے کہ پچاس سال کے بعد کوئی حیض نہیں ہوتا خواہ سیاسی مائل خون ہی آئے،عورت کو نماز روزہ ادا کرنا ہو گا اور اس کے ختم ہونے کے بعد کسی غسل وغیرہ کی ضرورت نہیں ۔۔تو یہ قول صحیح نہیں ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:مانع حیض گولیوں کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ جواب:مانع حیض گولیاں اگر صحت کے لیے نقصان دہ نہ ہوں تو ان کے استعمال کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے،مگر شرط یہ ہے کہ اس کا شوہر اس کی اجازت دے۔تاہم جہاں تک میری معلومات ہیں اس کا استعمال عورت کے لیے نقصان سے خالی نہیں۔کیونکہ خون حیض کا جسم سے خارج ہونا ایک فطری عمل ہے،اگر اس فطری خارج ہونے والی چیز کو اس کے وقت پر خارج ہونے سے روک دیا جائے تو یقینا اس سے صحت پر برا اثر پڑے گا۔علاوہ ازیں اس نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خود عورت کی اپنی ماہانہ عادت بگڑ جائے گی،اور پھر یہ نماز روزے کے سلسلے میں الجھن اور شک میں پڑی رہے گی،اور ازدواجی تعلقات میں شوہر کے لیے پریشانی ہو گی۔لہذا میں ایسی گولیوں کے استعمال کو اگرچہ حرام تو نہیں کہتا مگر مذکورہ اسباب کے تحت پسند بھی نہیں کرتا ہوں۔ بلکہ چاہیے کہ عورت کو اللہ عزوجل کی تقدیر اور نظام پر راضی خوشی رہنا چاہیے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آئے اور دیکھا کہ وہ آبدیدہ ہیں،جبکہ وہ عمرے کا احرام باندھ چکی تھیں،آپ نے پوچھا کہ کیا ہوا،کہیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ انہوں نے کہا:ہاں۔آپ نے فرمایا:"یہ وہ چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے۔"[1] الغرض عورت کو صبر سے کام لینا چاہیے اور اس میں بھی اللہ سے اجر کی امید رکھنی چاہیے ۔اگر اسے نماز روزے سے رکاوٹ ہو گئی ہو تو ذکر اذکار کا دروازہ کھلا ہے،اسے چاہیے کہ تسبیح و تہلیل اور دیگر اذکار میں محنت کرے،صدقہ دے،اپنے قول و فعل سے لوگوں کے ساتھ احسان کرے،اور یہ بڑی فضیلت کے کام ہیں۔(محمد بن صالح عثیمین)
[1] صحیح بخاری،کتاب الحیض،باب کیف کان بدء الحیض،حدیث:294۔ صحیح مسلم:کتاب الحج،باب بیان وجوہ الاحرام۔۔۔،حدیث:1211