کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 182
اور بغلوں کے بال نوچنا۔"[1] یہ حدیث اپنی صحت کے اعتبار سے متفق علیہ ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:لڑکیوں کے ختنہ کرنے کا کیا حکم ہے،کیا یہ مندوب و مستحب ہے یا جائز محض ہے؟ جواب:لڑکیوں کا ختنہ کرنا ایک مستحب عمل ہے بشرطیکہ شرعی طریقے سے ہو،اور احادیث میں اس کا ایک نام "خفاض" بھی آیا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ جنسی جذبات کم ہو جاتے ہیں۔ مستدرک حاکم اور طبرانی وغیرہ کی ایک حدیث کے الفاظ یوں ہیں کہ آپ علیہ السلام نے لڑکیوں کا ختنہ کرنے والی عورت سے کہا تھا: "أَشِمِّي وَ لَا تَنْهِكِي،فانه ابهى للوجه،وَ أَحْظَى عند الزوج " "معمولی سا گوشت اتارو،زیادہ گہرا مت کرو،بلاشبہ یہ عمل چہرے کو پررونق بناتا ہے اور شوہر کے لیے زیادہ رغبت کا باعث ہے۔" [2] اور یہ عمل بچپن ہی میں ہونا چاہیے۔ اور اسے سر انجام دے دینا چاہیے جیسے شرعی حکم کا علم ہو اور اس کی تطبیق کر سکے۔[3] (صالح فوزان) سوال:کیا عورتوں کا ختنہ کیا جائے یا نہیں؟ جواب:الحمدللہ ۔۔ہاں عورتوں کا ختنہ ہونا چاہیے اور یہ محض اتنا ہی ہے کہ اس کی شرمگاہ سے ابھرا گوشت جو مرغے کی کلغی کی مانند ہوتا ہے کاٹ دیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کا ختنہ کرنے والی عورت سے فرمایا تھا: "أَشِمِّي وَ لَا تَنْهِكِي،فانه ابهى للوجه،وَ أَحْظَى عند الزوج " "معمولی سا گوشت اتارو،زیادہ گہرا مت کرو،بلاشبہ یہ عمل چہرے کو پررونق بناتا ہے اور شوہر کے لیے زیادہ رغبت کا باعث ہے۔"[4] یعنی یہ حصہ کاٹنے میں مبالغہ نہ کیا جائے۔ مرد کے ختنے میں مقصود یہ ہے کہ اسے طہارت حاصل ہو یعنی قلفہ (شرمگاہ کے گرد غلاف) میں پیشاب
[1] صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب قص الشارب،حدیث:5550۔ صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،حدیث:257۔ سنن ابی داود،کتاب الترجل،باب فی اخذ الشارب،حدیث:4198 [2] حدیث میں موجود الفاظ جو میرے علم میں آئے وہ " ابهى" کی جگہ " اسرى" ہے۔ واللہ اعلم(عاصم)المعجم الصغیر للطبرانی:1؍91،حدیث:122 والسنن الکبری للبیہقی:8؍324،حدیث:17340 [3] یہ عمل عورتوں کے لیے کوئی واجب نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاک و ہند میں اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے۔ البتہ دیار عرب اور افریقہ میں معلوم و معروف ہے۔ جناب شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ ملاحظہ ہو جو آگے آ رہا ہے۔ [4] " فانه ابهى للوجه" کی جگہ " اسرى للوجه" کے الفاظ ہیں المعجم الصغیر للطبرانی:1؍91،حدیث:122۔ المعجم الاوسط للطبرانی:2؍368 حدیث:2253 والسنن الکبری للبیہقی:8؍324،حدیث:17340)