کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 179
ہم کہتے ہیں کہ یہاں تیمم دھوئے گئے اعضاء پر نہیں ہے،بلکہ ان اعضاء پر ہے جو دھوئے نہیں جا سکتے۔تو یہ مسئلہ ایک اعتبار سے موزوں پر مسح کے مشابہ ہے کہ اس میں بھی کچھ اعضاء کو دھویا جا سکتا ہے اور کچھ پر مسح کیا جا سکتا ہے۔یعنی پاؤں پر جن پر موزے ہوتے ہیں تو اس میں بدل اور مبدل منہ کو جمع کیا ہوتا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سنن فطرت؍اعمال فطرت[1] سوال:ناخن لمبے کرنے کا کیا حکم ہے،اور ان پر پالش لگانا کیسا ہے،جبکہ پالش لگانے سے پہلے میں وضو کر لیتی ہوں،اور پھر یہ چوبیس گھنٹے لگی رہتی ہے اور پھر اسے اتار دیتی ہوں؟ جواب:ناخن لمبے کرنا اور بڑھا کر رکھنا خلاف سنت ہے۔جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ: "فطری اعمال پانچ ہیں:ختنہ کرنا،استرا استعمال کرنا،مونچھیں کتروانا،بغلوں کے بال نوچنا اور ناخن کاٹنا۔" [2] اور کسی صورت میں یہ جائز نہیں کہ انہیں چالیس رات سے زیادہ چھوڑا جائے۔کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے کہ "مونچھیں کتروانے،ناخن تراشنے،بغلوں کے بال نوچنے اور زیر ناف کی صفائی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے یہ مقرر فرمایا تھا کہ ہم انہیں چالیس رات سے زیادہ نہ چھوڑیں۔"[3] نیز ان کے لمبا کرنے میں بعض حیوانات کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے بلکہ کافروں کے ساتھ بھی۔اور نیل پالش سے بچنا زیادہ افضل ہے اور وضو کے لیے اس کا اتارنا واجب ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پانی ناخن تک نہیں پہنچتا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:ناخن لمبے رکھنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:ناخنوں کا لمبا کرنا اگر حرام نہ بھی ہو تو مکروہ ضرور ہے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں متعین فرمایا ہے کہ انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑا جائے۔اور تعجب کی بات ہے کہ یہ لوگ جو اپنے آپ کو
[1] یعنی وہ اعمال و خصائل جو ایک سلیم الطبع انسان کے لیے پسندیدہ ہیں اور جمیع انبیاء علیہم السلام نے انہیں اختیار کیا اور تلقین فرمائی ہے "سنن فطرہ" کہلاتے ہیں۔ گویا یہ انسانوں کے لیے فطری اعمال کی مانند ہیں۔(مترجم) [2] صحیح بخاری،کتاب اللباس،باب قص الشارب،حدیث:5550۔ صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،حدیث:257۔ سنن ابی داود،کتاب الترجل،باب فی اخذ الشارب،حدیث:4198) [3] صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،باب التوقیت فی ذلک،حدیث:14،بعض روایات میں چالیس راتوں کی جگہ چالیس دنوں کا ذکر ہے۔ دیکھیے و سنن ابی داود،کتاب الترجل،باب فی اخذ الشارب،حدیث:4200،و سنن الترمذی،کتاب الادب،باب التوقیت فی تقلیم الاظافر واخذ الشارب،حدیث:2759