کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 168
وضو کر لے۔"[1] اور یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔حدث کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو قبل و دبر سے خارج ہو پیشاب پاخانہ وغیرہ،ان کے علاوہ ریاح پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے مگر ریاح سے صرف وضو لازم آتا ہے۔اور پیشاب پاخانے وغیرہ کی صورت میں وضو سے پہلے استنجا بھی کرنا پڑتا ہے۔اور وضو میں چہرہ،دونوں بازو،سراور کان کا مسح اور دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے،جو قرآن کریم اور سنت مطہرہ کے ظاہر سے ثابت ہے۔ اور خروج ریح کے علاوہ اونٹ کا گوشت کھانا،نیند آ جانا جس سے بے ہوشی ہو جائے اور ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونے سے بھی وضو واجب ہوتا ہے مگر استنجا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور شرمگاہ کو چھونے میں آدمی خواہ اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے یا دوسرے کی شرمگاہ کو مثلا بیوی یا بچہ بچی وغیرہ (تو اس سے وضو کرے۔) [2]اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔ سائل غسل سوال:کیا عورت کو بھی احتلام ہو جاتا ہے؟ اگر اسے احتلام ہو تو کیا کرے؟ اور اگر وہ احتلام کے بعد غسل نہ کرے تو اس پر کیا ہے؟ جواب:بعض اوقات عورتوں کو بھی احتلام ہو جاتا ہے،کیونکہ یہ بھی مردوں ہی کی طرح ہیں۔تو جیسے مردوں کو یہ صورت درپیش آ جاتی ہیں عورتوں کو بھی ہو جاتی ہیں۔مرد ہو یا عورت،اگر اسے احتلام ہو اور جاگنے پر اپنے جسم یا کپڑے پر اس کا کوئی اثر نمی وغیرہ محسوس نہیں ہوئی تو کوئی غسل نہیں ہے اور اگر کوئی نشان نمی وغیرہ محسوس ہو تو غسل کرنا واجب ہے۔کیونکہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے سوال کیا تھا کہ اسے اللہ کے رسول!کیا عورت پر بھی غسل واجب ہے،جب اسے احتلام ہو؟ آپ نے فرمایا:"ہاں،جب یہ نمی پائے۔"[3] اور اگر پچھلے کئی دنوں میں ایسا ہوا ہو،مگر کپڑے یا جسم پر کوئی نمی وغیرہ نہیں پائی گئی تو اس پر کچھ نہیں ہے۔لیکن اگر کوئی نشان پایا گیا تو (اسے چاہیے کہ غسل کرے) اور یاد کرے کہ کتنی نمازیں اس حالت میں پڑھی ہیں یا اگررہ گئی ہیں تو ان کی قضا دے۔
[1] صحیح بخاری،کتاب الوضوء،باب لا تقبل صلاۃ بغیر طھور،حدیث:135 و صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب وجوب الطھارۃ للصلاۃ،حدیث:225۔ [2] یہ فتویٰ احتیاط اور افضیلت کے طور پر ہے۔ جبکہ کچھ علماء بچے بچی کو استنجا کرانے کی صورت میں وضو ضروری نہیں کہتے،جیسے کہ پیچھے گزرا ہے۔(مترجم) [3] صحیح بخاری،کتاب العلم،باب الحیاء فی العلم،حدیث:130 و صحیح مسلم،کتاب الحیض،باب وجوب الغسل علی المراۃ بخروج المنی منھا،حدیث:313۔