کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 166
پہنچے جسے کہ دھویا جا رہا ہے (اس لیے اس پر ہاتھ ضرور پھیر لے)۔[1] (محمد بن صالح عثیمین)
سوال:خواتین کی شرمگاہ سے خارج ہونے والی رطوبت کا کیا حکم ہے،کیا یہ نجس ہوتی ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کپڑے نجس ہو جاتے ہیں؟ اوراس حالت میں ان کی ان عبادات کا کیا حکم ہے جو کئی کئی دن یا لمبے وقت تک جاری رہتی ہیں مثلا حج و عمرہ،طواف اور مسجد کے اندر بیٹھنا وغیرہ؟ اور اس رطوبت کا کیا حکم ہے جو صنفی حرکات (بوس و کنار) کے باعث خارج ہو جاتی ہے جبکہ عملا مباشرت نہیں ہوتی ہے۔کیا اس سے غسل واجب ہوتا ہے جیسے کہ غسل جنابت سے یا کچھ اور ۔۔۔؟
جواب:(حیض،نفاس اور مادۂ منویہ کے علاوہ) عورت کے قبل سے خارج ہونے والی رطوبت بھی نجس ہوتی ہیں،ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بدن کے جس حصے یا کپڑے کو لگیں تو وہ نجس ہو جاتا ہے۔اس صورت میں عورت پر لازم ہے کہ استنجا کرے،وضو کرے،جسم کا وہ حصہ دھوئے جسے یہ لگی ہو اور کپڑا بھی دھوئے۔اور ایک اصول قاعدہ مسلمان کے لیے یہ ہے کہ اس کے سبیلین (قبل و دبر) سے اگر کچھ ہوا خارج ہو اور وہ نماز پڑھنا چاہے تو اس پر وضو واجب ہوتا ہے۔
اور جس عورت کو مسلسل یہ عارضہ ہو تو سے چاہیے کہ استنجا کرے،جسم کو صاف کر کے لنگوٹ اس طرح باندھے کہ باہر کچھ نہ نکلے نہ لگے،اور ہر نماز کے لیے نیا وضو کیا کرے اور ایسے ہی طواف کے لیے بھی۔اور اس کے لیے مسجد میں بیٹھنا بھی جائز ہے۔کیونکہ یہ رطوبات حیض نہیں ہیں۔مسجد میں بیٹھنے سے مانع صرف حیض و نفاس ہے یا جنابت اور زوجین کی ملاعبت کے دوران جو خارج ہو۔اگر وہ منی نہ ہو (جو لذت سے اوجھل کر نکلتی ہے) تو اس سے غسل واجب نہیں ہوتا۔(صالح فوزان)
سوال:ان رطوبات کا کیا حکم ہے جو بعض اوقات عورت کی شرمگاہ سے بہ آتی ہیں؟ کیا یہ طاہر ہیں یا نجس،اور کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب:بحث و تحقیق کے بعد مجھ پر یہ واضح ہوا ہے کہ اگر یہ رطوبات عورت کے مثانہ سے نہ نکلی ہوں،بلکہ رحم سے نکلی ہوں تو طاہر ہیں،لیکن اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔اور اس نکلنے والی چیز کے لیے،جس سے وضو ٹوٹتا ہے،نجس ہونا شرط نہیں ہے۔مثلا ہوا کا خارج ہونا،باوجودیکہ یہ دبر سے نکلتی ہے اور اس کا اپنا کوئی جِرم (جسم) نہیں
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ یہ مسائل دور نبوت میں کسی طرح اشکال کا باعث نہیں سمجھے گئے۔ حالانکہ آپ صفائی ستھرائی کا انتہائی اہتمام فرماتے تھے،اپنے صحابہ کو تلقین فرماتے تھے بلکہ جمعہ کے لیے تو بالخصوص تاکیدا کہا گیا ہے کہ گھر میں میسر دھن(تیل وغیرہ)استعمال کیا جائے۔ اس دور میں تو کہیں کسی کے ذہن میں اس کے لگانے سے وضو ہونے نہ ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ تیل کی تہ انتہائی نامعلوم ہوتی ہے اور تیل آہستہ آہستہ جلد کے اندر جذب بھی ہو جاتا ہے،اس لیے اس قسم کے اشکالات پیدا کرنا غلو اور تنطع ہے،تیل لگانے سے غسل اور وضو وغیرہ بالکل صحیح ہوتا ہے۔(عمر فاروق السعیدی عفااللہ عنہ)