کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 163
سے آگے ہیں۔ (محمد بن صالح عثیمین) سوال:جس عورت نے اپنے ناخنوں پر نیل پالش لگائی ہو،اس کے وضو کا کیا حکم ہے؟ جواب:ناخنوں پر لگائی جانے والی ایسی چیز جس کی اپنی ایک تہ بھی ہو جسے کہ (عربی میں) المناکیر کہتے ہیں (اردومیں ناخن پالش یا نیل پالش کہلاتی ہے)۔عورتوں کو اپنے نماز پڑھنے کے دنوں میں،اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ طہارت (وضو غسل) کے وقت یہ چیز پانی کو جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ ہوتی ہے۔اور ہر وہ چیز جو وضو اور غسل میں پانی کو جلد تک پہنچنے میں رکاوٹ ہو اس کا استعمال جائز نہیں ہے۔ جبکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ (المائدہ 5؍6) "اپنے چہرے اور ہاتھ دھویا کرو۔" تو جس عورت نے اس پالش کے ساتھ وضو یا غسل کیا تو اس نے ایک فریضہ چھوڑ دیا۔ اور جو خاتون ایام مخصوصہ میں ہو تو اسے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے الا یہ کہ کافر عورتوں کی خصوصیت ہو تو امام مخصوصہ میں بھی اس کا استعمال جائز نہ ہو گا،کیونکہ اس میں ان کافروں کی مشابہت ہو گی۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کچھ حضرات نے اس (ناخن پالش وغیرہ) کے جائز ہونے کا اس طرح سے فتویٰ دیا ہے کہ یہ موزے پہننے سے مشابہ ہے۔لہذا عورت اگر مقیم ہو تو ایک دن رات اوراگر مسافر ہو تو تین دن رات تک لگا سکتی ہے۔لیکن یہ فتویٰ غلط ہے۔ہر وہ چیز جسے لوگ اپنا بدن ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اسے موزوں کی طرح نہیں کہا جا سکتا ہے۔موزوں کے متعلق شریعت کا حکم موجود ہے کہ بالعموم ضرورت کے تحت پہنے جاتے ہیں اور ان پر مسح کیا جاتا ہے۔اور پاؤں اس بات کا محتاج ہے کہ اسے گرم رکھا جائے اوراس کی حفاظت بھی کی جائے کہ یہ زمین پر پڑتا ہے جہاں کنکر پتھر وغیرہ ہوتے ہیں اورٹھنڈک وغیرہ بھی ہوتی ہے،لہذا شریعت نے ان پر مسح کرنے کی خاص رخصت دی ہے۔اور کچھ لوگ اسے پگڑی پر قیاس کرتے ہیں۔اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ پگڑی کا مقام سر ہے اورسرکا فریضہ مشروع ہے بلکہ خفیف ہے کہ اس پر صرف مسح کیا جاتا ہے جبکہ ہاتھوں کا حکم یہ نہیں ہے ان کے متعلق فرض یہ ہے کہ انہیں دھویا جائے،اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ عورت اپنے ہاتھوں کے دستانوں پر مسح کر لیا کرے حالانکہ دستانے بھی ہاتھ کو چھپاتے ہیں۔تو اس لیے کسی ایسے حائل کو جو پانی کے لیے جسم تک پہنچنے میں مانع اور رکاوٹ ہو،پگڑی یا موزوں پر قیاس نہ کرے۔بلکہ مسلمان پر واجب ہے کہ حق پہچاننے کے لیے انتہا درجے کی کوشش اورمحنت کرے اور کسی فتویٰ پر پیش قدمی نہ کرے بلکہ اسے یہ شعور رہنا چاہیے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے ہاں پوچھ گچھ ہو گی،کیونکہ صاحب فتویٰ