کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 162
کی خلقت کو تبدیل کرنے کے معنی میں ہے۔اوراللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنا شیطان کا کام اور اس کا حکم ہے۔اس نے عہد کیا تھا: وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ (النساء 4؍119) "میں ان لوگوں کو بالضرور حکم دوں گا اور پھر وہ اللہ کی خلقت میں لازما تبدیلی کریں گے۔" اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ ان بالوں کو مونڈ لینا جائز ہے کیونکہ ان کے متعلق خاموشی اختیار کی گئی ہے۔اور شریعت میں یا تو کچھ چیزوں کے بارے میں ’حکم‘ہے اور کچھ کے بارے میں ’منع‘ہے اور کچھ کے بارے میں ’خاموشی‘ہے۔اگر یہ حکم ہوتا تو لازما کہہ دیا جاتا۔اور بحیثیت استدلال یہ بات زیادہ قوی ہے کہ جن بالوں کے متعلق ممانعت نہیں آئی ہے ان کا دور کر دینا جائز ہے۔ اور جن بالوں کے مونڈنے کا حکم دیا گیا ہے،ان کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ "مونچھیں،ناخن،زیر ناف اور بغلوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے یہ مقرر فرمایا تھا کہ ہم انہیں چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑا کریں۔"[1] مگر کچھ لوگ ہیں کہ وہ اپنے ناخن بڑھا کے رکھنا چاہتے ہیں،اور کئی ہیں کہ صرف چھنگلیا کا ناخن بڑھا کر رکھتے ہیں۔حالانکہ اس میں شریعت کی مخالفت ہے اور درندوں سے مشابہت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار آداب ذبح کے بارے میں فرمایا تھا کہ "جو خون بہا دے،اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ کھا لے،سوائے دانت یا ناخن کے،دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہیں۔"[2] یعنی حبشی اپنے ناخن بڑھائے رکھتے ہیں اوران سے چیرنے پھاڑنے کا کام لیتے ہیں۔مثلا اگر کوئی خرگوش پکڑا تو ناخن ہی سے اسے چیر پھاڑ لیا،اور چھری کی طرح استعمال کر لیا۔ تو تعجب ہوتا ہے ایسے لوگوں پر کہ اپنے مہذب و مثقف ہونے کے دعوے کرتے ہیں،اپنی صفائی ستھرائی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں،اور ادھر یہ حال ہے کہ ناخن بڑھائے ہوئے،بغلیں غلیظ (بال بڑھائے ہوئے) اور زیر ناف اس سے بھی بری،اور دعوے ہیں کہ ہم بڑے ترقی یافتہ ہیں،تہذیب و ثقافت اور نظافت میں ہم سب
[1] سنن ابی داود،کتاب الترجل،باب فی اخذ الشارب،حدیث:4200 و سنن الترمذی،کتاب الارب،باب التوقیت فی تعلیم الاظافر واخذ الشارب،حدیث:2759۔ بعض روایات میں چالیس دن کی جگہ چالیس راتوں کا ذکر ہے۔ دیکھیے:صحیح مسلم،کتاب الطھارۃ،باب خصال الفطرۃ،حدیث:258 و سنن ابن ماجہ،کتاب الطھارۃ،باب الفطرۃ،حدیث:295 و سنن النسائی،کتاب الطھارۃ،باب التوقیت فی ذلک،حدیث:14۔ [2] صحیح بخاری،کتاب الذبائح والصید،باب ما انھر الدم من القصب والمروۃ والحدید،حدیث:5184 و صحیح مسلم،کتاب الاضاحی،باب جواز الذبح بکل ما انھر الدم الا السن والظفر۔۔۔،حدیث:1967 و سنن ابی داود،کتاب الذبائح،باب فی الذبیحۃ بالمروۃ،حدیث:2821۔