کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 131
اور بے شمار واقعات ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے لیے دعائیں کروائیں اور آپ نے کیں۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ نے ایک بار بیان فرمایا کہ:میری امت میں سے ستر ہزار افراد ایسے ہوں گے جو بغیر کسی حساب اور بغیر کسی عذاب کے جنت میں جائیں گے۔اور وہ ایسے لوگ ہوں گے جو دم جھاڑ نہیں کرواتے ہوں گے،لوہے سے داغ نہیں لگواتے ہوں گے،بدفالی نہیں لیتے ہوں گے اور اپنے رب ہی پر توکل کرتے ہوں گے۔چنانچہ حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور عرض کرنے لگے:اے اللہ کے رسول!اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے ان ہی میں سے بنا دے۔چنانچہ آپ نے فرمایا:"تم ان ہی میں سے ہو۔"[1] تو جائز توسل کی ایک صورت یہ بھی ہے۔یعنی انسان کسی صالح انسان سے،جس کی دعا مقبول ہونے کی امید ہو،دعا کروائے اور چاہیے کہ دعا کروانے والا اپنے فائدہ کے ساتھ ساتھ دعا کرنے والے کے لیے بھی فائدہ کا ارادہ رکھتا ہو،صرف اپنی غرض ہی پیش نظڑ نہ رکھے۔کیونکہ آپ جب اپنے فائدہ کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی کا فائدہ بھی سوچیں گے تو یہ اس کے لیے بہت بڑا احسان ہو گا۔اور انسان جب پیٹھ پیچھے کسی کی غیر حاضری میں اس کے لیے دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے:" آمين،ولك بمثل " (اللہ کرے ایسے ہی ہو،اور تمہارے لیے بھی یہی کچھ ہو)۔چنانچہ وہ اس طرح دعا کرنے سے محسنین میں سے بن جاتا ہے اور اللہ عزوجل احسان کرنے والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ دوسری قسم ناجائز توسل ہے۔یعنی بندہ اللہ کے حضور کوئی ایسا وسیلہ پیش کرے جو وسیلہ ہی نہیں یا شریعت کی رُو سے وہ ناجائز ہے۔اس طرح کا وسیلہ لغو،باطل اور غیر معقول ہو گا کیونکہ وہ شریعت میں غیر منقول ہے۔مثلا کوئی کسی میت کو پکارے اور اس سے دعا کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ سے دعا کرے۔یہ وسیلہ نہ شرعی ہے اور نہ کسی طرح سے صحیح۔کیونکہ یہ بڑی حماقت ہے کہ انسان کسی مردے سے دعا کرے کہ وہ اس کے لیے اللہ سے دعا کرے۔کیونکہ انسان جب مر جاتا ہے تو اس سے اس کے عمل بھی منقطع ہو جاتے ہیں،اور اس کے لیے ناممکن ہو جاتا ہے کہ مرنے کے بعد کسی کے لیے دعا کرے۔حتیٰ کہ نبی علیہ السلام کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہتا ہے۔چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد کبھی آپ سے آپ کی دعا کا وسیلہ نہیں لیا۔جناب عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب قحط پڑا تو انہوں نے اس طرح دعا کی: "اللّٰهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا،وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا،فَاسْقِنَا " [2]
[1] صحيح بخارى،كتاب الطب،باب من اكتوى او كوى غيره ۔۔۔،حديث 5378۔ صحيح مسلم،كتاب الايمان،باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة،حديث 220 [2] صحيح بخارى،كتاب الاستسقاء،باب سؤال الناس الامام استسقاء۔۔۔،حديث:964