کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 128
مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ،وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ)[1] تو اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا سوال ہے تو اس مناسبت سے اسمائے حسنیٰ میں سے "الغفور" اور "الرحیم" کا واسطہ وسیلہ لیا گیا ہے۔ توسل و وسیلہ کی یہ نوعیت اللہ عزوجل کے اس فرمان سے ماخوذ ہے: وَلِلّٰهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف 7؍180) "اور اللہ عزوجل کے پیارے پیارے خوبصورت نام ہیں،تو اسے ان ہی سے پکارو۔" اور دعا میں دعائے سوال اور دعائے عبادت دونوں شامل ہیں۔ 2۔ دوسری قسم یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی صفات کے واسطے وسیلے سے دعا کی جائے۔اس میں بھی مذکورہ بالا کی طرح دو صورتیں ہیں: پہلی یہ کہ عمومی انداز میں کہا جائے مثلا: "اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَسْمَائِكَ الْحُسْنَى وصفاتك العلى" [2] پھر اپنا سوال پیش کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دعا و سوال کی مناسبت سے کسی خاص صفت کا واسطہ دے کر دعا کی جائے،مثلا جیسے کہ حدیث میں آیا ہے: اللّٰهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ،وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ،أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيَاةَ خَيْرًا لِي،وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي [3] اس دعا میں اللہ کی صفت علم اور قدرت کا واسطہ وسیلہ پیش کیا گیا ہے جو مطالبہ دعا کے عین مطابق ہے۔اس میں یہ بھی ہے کہ دعا میں کسی صفت فعلی کو واسطہ بنا لیا جائے تو جائز ہے،مثلا: اللّٰهم صلِّ على محمد،وعلى آل محمد،كما صليت على إبراهيم،وعلى
[1] دعا کا ترجمہ:اے اللہ میں اپنی جان پر بہت زیادہ ظلم اور زیادتی کر چکا ہوں،اور گناہوں کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں بخش سکتا،سو تو مجھے اپنی طرف سے بخش دے،اور مجھ پر رحم فرما،بلاشبہ تو بے انتہا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔(صحيح بخارى،كتاب صفة الصلاة،باب الدعاء قبل السلام،حديث 799) [2] ترجمہ:اے اللہ میں تجھ سے تیرے خوبصورت ناموں اور عالی شان صفات کے واسطے سے سوال کرتا ہوں ۔۔۔ [3] ترجمہ:اے اللہ تجھے تیرے علم غیب کا واسطہ اور مخلوقات پر تیری قدرت کا واسطہ،مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ تیرے علم کے مطابق میرا زندہ رہنا میرے لیے بہتر ہو،اور مجھے وفات دے اس وقت جب تیرے علم کے مطابق میرا مر جانا میرے لیے بہتر ہو۔(سنن نسائى،كتاب صفة الصلاة،نوع آخر(من الدعاء)،حديث:1305 صحيح۔ مسند احمد بن حنبل:4؍264،حديث:18351۔