کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 126
سورۂ فاتحہ کے بارے میں اپنے صحابی سے فرمایا تھا:"تجھے کس نے بتایا تھا کہ یہ دَم بھی ہے؟"[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماروں کے لیے دعا کرتے اور بعض اوقات پھونکتے بھی تھے،تو اللہ عزوجل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے،جس کے لیے شفا کا ارادہ کیا ہوتا،شفا عنایت فرما دیتا تھا۔ 2۔ دوسری قسم کے اسباب وہ معلوم و معروف مادی ادویات ہیں،جن کا مفید ہونا شریعت اور ازروئے تجربات ثابت ہوا ہے،مثلا شہد وغیرہ۔اور ان دواؤں کا عملا مؤثر ہونا ثابت ہونا چاہیے۔ محض وہم و خیال نہ ہو۔اگر تجربات سے ان کا مفید ہونا ثابت ہو چکا ہو تو انہیں بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے،اللہ کے حکم سے شفا ہو جائے گی۔اور اگر محض وہم و خیال ہی ہو کہ مریض کو بس کسی نفسیاتی راحت کا احساس ہوتا ہو اور مرض میں افاقہ لگتا ہو تو اس پر اعتماد کرنا،اور اسے دوا سمجھنا جائز نہیں،تاکہ انسان کسی طرح کے اوہام و خیالات کے درپے نہ ہو۔تو یہی وجہ ہے کہ احادیث میں کوئی کڑا چھلہ پہننے یا دھاگہ وغیرہ باندھنے کی منع آئی ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ ان سے کوئی بیماری دور ہوتی ہے یا کسی کا دفعیہ ہوتا ہے۔کیونکہ یہ چیزیں نہ شرعی طور پر سبب ہیں اور نہ حسی اور مادی طور پر۔اور جن چیزوں کے متعلق ان کا سبب ہونا شرعی طور سے یا حسی اور مادی طور سے ثابت نہ ہو انہیں سبب بنانا یا سبب کے طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ ایسی چیزوں کو سبب سمجھنا اللہ تعالیٰ کے ملک و تدبیر میں داخل دینا ہے اور اس کے ساتھ شریک بنانا ہے۔گویا بندہ اپنے طور پر ایسے اسباب گھڑتا ہے جن سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔امام توحید جناب الشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب التوحید میں زیر عنوان " باب من الشرك لبس الحلقة والخيط ونحوها لدفع البلاء أو رفعه " اس مسئلہ کو خوب نکھارا ہے (باب ہے اس مسئلہ میں کہ آفت و مصیبت ٹالنے یا دور کرنے کی غرض سے چھلہ پہننا یا دھاگی باندھنا شرک ہے)۔ اور میرا خیال ہے کہ سوال میں جو ذکر ہوا کہ کسی پنساری وغیرہ نے جوڑوں کی سوجن اور درد وغیرہ کے لیے جو چھلہ دیا ہے وہ اس قسم سے ہے۔اور چھلے یا کپڑے پہننا نہ تو شرعی سبب ہیں اور نہ حسی اور مادی کہ روماٹیزم کے مریض کے لیے یہ کسی طرح مفید ہوں۔تو اس مریض کو ان کا پہننا جائز نہیں ہے،حتیٰ کہ ان کے متعلق ثابت ہو کہ یہ شرعی سبب ہیں۔اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا کسی مریض کے لیے جائز ہے کہ برتن میں قرآنی آیات لکھے،پھر انہیں دھو کر پی لے ۔۔؟ جواب:اس بارے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا ہے۔امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ سلف کی ایک جماعت یہ جائز سمجھتے تھے کہ مریض کے لیے کچھ قرآنی آیات لکھی جائیں اور پھر وہ انہیں دھو کر پی لے۔امام مجاہد
[1] صحيح بخارى،كتاب الاجاره،باب ما يعطى فى الرقية۔۔۔،حديث:2156 صحيح مسلم،كتاب السلام،باب جواز اخذ الاجرة على الرقية۔۔۔ حديث:2201