کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 125
دیکھ لیں تو اللہ کے حکم سے اس میں کچھ ایسا اثر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چیز خراب ہو جاتی ہے یا انسان وغیرہ بیمار ہو جاتا ہے۔ اور جائز ہے کہ ان چیزوں سے محتاط رہا جائے کہ انسان کو کسی کی نظر بد لگے اور ایسے اسباب اختیار کیے جائیں جو انسان کو اس کے شر سے محفوظ رکھیں،مثلا تعوذ پڑھنا اور دم کرنا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سید حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو جنوں اور انسانوں کی بدنظری سے تحفظ کے لیے دم کیا کرتے تھے۔اور جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنظری سے بچاؤ کے لیے دم کیا کرتے تھے۔اور اس دم کے الفاظ یہ ہوتے تھے: "بِسْمِ اللّٰهِ أَرْقِيكَ،مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ،مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ،أَوْ عَيْنِ حَاسِدٍ اللّٰهُ يَشْفِيكَ،بِسْمِ اللّٰهِ أَرْقِيكَ". [1] "میں تجھے اللہ کے نام سے دم کرتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو تجھے اذیت دے،وہ کوئی جان ہو یا کسی حاسد کی آنکھ،اللہ تجھے شفا دے،اللہ کے نام سے میں تجھے دم کرتا ہوں۔" انسان پر واجب ہے کہ یہ دعائیں پڑھا کرے اور ایسے اسباب اختیار کرے جن کے ذریعے سے وہ اس سے محفوظ رہے،اور اگر یہ پریشانی آ جائے تو اس کا علاج کرے۔اگر کسی انسان کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی نظر لگی ہے تو اسے کہے کہ وہ اپنا کپڑا وغیرہ دھو کر پانی دے،جیسے کہ حدیث میں آیا ہے کہ’’جب تم سے دھلوایا جائے؍غسل کروایا جائے تو دھو دو؍ یا غسل کر دو۔‘‘ [2] (عبداللہ بن جبرین) سوال: کیا میرے لیے جائز ہے کہ کوئی گنڈہ وغیرہ لٹکا لوں،کیونکہ مجھے نفسیاتی پریشانیاں درپیش ہیں؟ جواب: تمیمے (گنڈے،حرام تعویذ) لٹکانا قطعا جائز نہیں ہے۔کیونکہ ان کی ممانعت آئی ہے۔البتہ قرآنی آیات سے یا مسنون دعاؤں سے دم کیا جائے،کثرت سے ذکر الٰہی کیا جائے،صالح اعمال اپنائے جائیں،شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کی جائے،گناہ اور گناہ پسند لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے،تو اس طرح سے انسان کو راحت،اطمینان اور باسعادت زندگی نصیب ہوتی ہے۔(عبداللہ بن جبرین) سوال: جوڑوں کے درد اور سوجن (روماٹیزم) کے لیے لوہے کا چھلہ یا کپڑا پہننا کیسا ہے؟ جواب: یاد رکھیے دوا شفایابی کا ایک سبب اور ذریعہ ہے،اور اسے سبب بنانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔اور سبب وہی جائز ہو سکتا ہے جسے اللہ نے سبب بنایا ہو۔اور اسباب جو جائز اور مشروع ہیں دو طرح کے ہیں: 1۔ شرعی اسباب مثلا قرآن کریم کی آیات پڑھ کر پھونکنا یا دعائیں کرنا اور پھونکنا،جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] سنن ترمذى،كتاب الجنائز،باب التعوذ للمريض،حديث:972۔ صحيح ابن ماجه،كتاب الطب،باب ما عوذ به النبى و ما عوذ به،حديث:3523 [2] صحيح مسلم،كتاب السلام،باب الطب والمريض والرقى،حديث:2188