کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 124
حاسد کی آنکھ۔اللہ تجھے شفا دے،میں اللہ کے نام سے تجھے دَم کرتا ہوں۔" [1] 2۔ غسل کروانا (یعنی اس شخص سے جس کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی نظر لگی ہے):جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا،یہ حدیث اوپر تفصیل سے ذکر ہو چکی ہے،پھر یہ پانی مریض پر چھڑک دیا جائے۔اس کے علاوہ اس کا پیشاب یا پاخانہ یا اس کے قدموں کی خاک وغیرہ لینے کی کوئی اصل نہیں ہے۔حدیث میں صرف اس کے اعضائے وضو اور زیر جامہ کا پانی لینے کا بیان ہے۔اور ممکن ہے کہ اس کے رومال ٹوپی یا کپڑے کا پانی لینا بھی مراد ہو۔واللہ اعلم اور پیشگی طور پر نظر بد سے بچنے کے لیے کوئی شرعی بچاؤ حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ یہ توکل کے خلاف ہے۔بلکہ یہ عین توکل ہے کیونکہ توکل یہی ہے کہ مشروع اور مباح اسباب،جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جو جائز قرار دئیے ہیں،کا استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر اعتماد کیا جائے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں جناب حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو ان الفاظ سے دم کیا کرتے تھے: " أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لامَّةٍ " . "میں تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر بری نظر سے جو دیوانہ بنا دے۔" [2] اور فرمایا کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام بھی اسی طرح اسحاق اور اسماعیل علیہم السلام کو دم کیا کرتے تھے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال: کیا کسی مسلمان کے لیے جائز ہے کہ نظر بد سے احتیاط کرے،کیا اس کا سنت میں کوئی ثبوت ہے؟ اور کیا یہ اللہ پر توکل کے خلاف نہیں ہے؟ جواب: صحیح حدیث میں آیا ہے کہ "نظر لگ جانا حق ہے،اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آنے والی ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی،اور جب تم سے غسل کروایا جائے تو غسل کر دیا کرو۔"[3] اور "نظر" سے مراد انسانی نظر ہی ہے جو بعض اوقات چیزوں پر اس طرح سے اثر انداز ہوتی ہے کہ انہیں تلف اور خراب کر دیتی ہے،اور یہ سب اللہ کے حکم اور تقدیر سے ہوتا ہے۔اور یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے،اتنا ضرور ہے کچھ طبیعتوں میں کوئی شرارت سی ہوتی ہے،تو جب وہ کسی چیز کو ٹکٹکی لگا کر
[1] سنن ترمذى،كتاب الجنائز،باب التعوذ للمريض،حديث:972۔ صحيح سنن ابن ماجه،كتاب الطب،باب ما عوذ به النبى و ما عوذ به،حديث:3523 [2] صحيح بخارى،كتاب الانبياء،باب يزفون۔۔۔،حديث:3191 [3] صحيح مسلم،كتاب السلام،باب الطب والمريض والرقى،حديث:2188