کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 121
سے دلائل ثابت ہیں اور ان احادیث کی روشنی میں یہ عمل شرک اصغر شمار ہوتا ہے۔اور اگر ان کے متعلق یہ عقیدہ باندھ لے کہ یہ چیزیں ہی براہ راست،اللہ کی مشیت کے بغیر،ازخود محافظ ہیں یا مرض دور کرتی ہیں یا کسی آفت کو ٹالتی ہیں تو یہ شرک اکبر ہو گا۔ دوسری قسم وہ ہے جو لوگ لٹکاتے ہیں قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں وغیرہ،تو ان میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔بعض انہیں جائز قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اس رُقیہ (دم) کی ایک صورت ہے جو جائز ہے۔اور کچھ اہل علم ان سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ حرام ہیں۔ان کے پاس دو دلیلیں ہیں۔ایک وہ عام احادیث جن میں تمائم سے روکا گیا اور ان کے شرک ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔تو ضروری ہے کہ کچھ جواز اور خصوصیت کے لیے کوئی شرعی دلیل موجود ہو اور وہ کہیں نہیں ہے۔ اور دَم جھاڑ کے بارے میں صحیح احادیث میں آیا ہے کہ اگر وہ قرآنی آیات اور جائز دعاؤں کے ذریعے سے ہوں تو ان میں کوئی حرج نہیں اور ضروری ہے کہ ایسی زبان میں ہوں جو سمجھ میں آتی ہو،اور پھر ان الفاظ پر اعتماد نہ ہو بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ یہ ایک سبب محض ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ تَكُنْ شِرْكًا "[1] "ان دم جھاڑ میں کوئی حرج نہیں جب تک شرک نہ ہوں۔" اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کچھ صحابہ کرام نے بھی دم کیا ہے۔اور فرمایا کہ "لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ أَوْ حُمَّةٍ "[2] "دم جھاڑ بدنظری سے ہے یا ڈنک مارنے سے۔" اور اس معنی میں احادیث بہت زیادہ ہیں۔تمائم (جو لٹکائے جاتے ہیں) ان میں سے استثناء کی کوئی ایک بھی حدیث نہیں ہے،تو عمومی دلائل کی روشنی میں ان کو حرام کہنا واجب ہے۔ دوسری دلیل:شرک کے ذرائع کا بند کرنا۔اور یہ شریعت اسلامیہ کا ایک اہم ترین اصول ہے۔اور ظاہر ہے کہ اگر ہم قرآنی آیات اور مباح دعاؤں کے لکھنے اور لٹکانے کو جائز کہیں گے تو شرک کا دروازہ کھل جائے گا اور جائز تمیمے ممنوع تمائم کے ساتھ خلط ملط ہو جائیں گے،اور ان میں فرق کرنا بڑی دقت نظری ہی سے ممکن ہو سکے گا،
[1] صحيح مسلم،كتاب السلام،باب لا باس بالرقى۔۔۔،حديث 2200۔ المستدرك للحاكم:4؍236،حديث 7485،صحيح۔ [2] صحيح بخارى،كتاب الطب،باب من اكتوى او كوى غيره ۔۔۔،حديث 5378۔ صحيح مسلم،كتاب الايمان،باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة،حديث 220۔ مسند احمد بن حنبل:1؍271،حديث:2448۔ اسناده صحيح۔