کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 120
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی دعائیں ہیں جو احادیث میں وارد ہیں اور اہل علم نے بیان کی ہیں۔ مگر ان آیات و اذکار کا لکھ کر لٹکانا،تو اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔کچھ جائز سمجھتے ہیں اور کچھ ناجائز کہتے ہیں۔تاہم ان کا ناجائز ہونا ہی راجح ہے۔کیونکہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔آپ سے صرف اتنا ہی ثابت ہے کہ آپ مریض پر دم کیا کرتے تھے۔اس کے علاوہ ان کا لکھ کر مریض کی گردن یا بازو میں باندھنا،لٹکانا یا تکیے کے نیچے رکھنا وغیرہ ایسے امور ہیں کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں اس لیے ان کا ممنوع ہونا ہی راجح ہے۔انسان کسی چیز کو دوسری کے لیے شریعت کی اجازت کے بغیر سبب بنائے تو اس طرح کا کام شرک کی ایک قسم شمار ہوتا ہے،کیونکہ اس میں ایک چیز کے سبب ہونے کا اثبات و دعویٰ کیا جاتا ہے جسے اللہ نے سبب نہیں بنایا۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال: کیا تعویذات کا لکھنا،قرآنی ہوں یا غیر قرآنی،اور ان کا گردن میں لٹکانا شرک ہے یا نہیں۔۔؟ جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:"إِنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتِّوَلَةَ شِرْكٌ"[1] (بلاشبہ دم جھاڑ،لٹکائے جانے والے گنڈے اور محبت کے گنڈے شرگ ہیں) (اسے احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ،ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا اور صحیح کہا)۔نیز احمد،ابویعلیٰ اور حاکم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے کوئی گنڈہ لٹکایا،اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے،جس نے کوئی کوڑی باندھی اللہ اس کا دکھ دور نہ کرے۔"[2] امام حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرمایا کہ "جس نے کوئی تمیمہ (گنڈہ) لٹکایا،اس نے شرک کیا۔"[3] اور اس معنیٰ کی احادیث بہت زیادہ ہیں۔ تمیمہ کا لفظ ہر اس چیز پر استعمال ہوتا ہے جو بچوں یا بڑوں وغیرہ پر بھی اس غرض سے لٹکائی جاتی ہے کہ نظر بد،جن یا بیماری وغیرہ سے بچاؤ رہے۔(عرب میں) کچھ لوگ انہیں جامعہ بھی کہتے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں۔ایک تو وہ ہیں جن میں شیاطین کے نام لکھے جاتے ہیں یا ہڈیاں،منکے،میخیں لٹکائی جاتی ہیں۔ یا کچھ طلسمات ہوتے ہیں یعنی حروف تہجی وغیرہ۔اس قسم کی چیزوں کے حرام ہونے میں قطعا کوئی شک نہیں۔اور اس کے بہت
[1] سنن ابى داؤد،كتاب الطب،باب فى تعليق التمائم،حديث 3883۔ صحيح سنن ابن ماجه،كتاب الطب،باب تعليق التمائم،حديث 3530 صحيح۔ المستدرك للحاكم:4؍241،حديث 7505۔ مسند احمد بن حنبل:1؍381،حديث:3615۔ [2] المستدرك للحاكم:4؍240،حديث:7501،صحيح الاسناد۔ صحيح ابن حبان:13؍750 حديث:6086۔ مسند احمد بن حنبل:4؍154،حديث:17440۔ مسند ابى يعلى:3؍295،حديث:1759۔ [3] مسند احمد بن حنبل:4؍156۔ حديث:17458،اسناده قوى۔