کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 117
الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر پھونکتے (اس میں کچھ لعاب بھی ہوتا) پھر انہیں اپنے چہرے اور جسم پر جہاں تک ہاتھ پہنچتا پھیرا کرتے تھے۔" [1] اسی طرح حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی وہ معروف حدیث پیش کی ہے جس میں انہوں نے ایک مریض پر فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔اور صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ "وہ اس پڑھنے کے دوران میں اپنا لعاب جمع کرتے رہے اور پھر مریض پر پھونکا،چنانچہ وہ بھلا چنگا ہو گیا۔"[2] ایسے ہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سید عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بھی لائے ہیں کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دم میں یوں بھی ہے: ((بِسْمِ اللّٰهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا))[3] "اللہ تعالیٰ کے نام سے ہماری مٹی،ہمارے ایک کا لعاب،ہمارے بیمار کو شفا ملے،ہمارے رب کے حکم سے۔" امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اس میں یہ بیان ہے کہ دم کرتے ہوئے کسی قدر لعاب بھی پھونکنا مستحب ہے،اس کے جواز پر اجماع ہے اور جمہور صحابہ کرام،تابعین اور ان کے بعد والوں نے اسے مستحب کہا ہے۔"[4] امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ:"طبی تحقیقات اس بات پر گواہ ہیں کہ لعاب کو مزاج کی اصلاح و تعدیل میں بڑا عمل دخل ہے اور وطن کی مٹی بھی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر میں بہت مؤثر ہے ۔۔اور یہاں تک کہا کہ دم جھاڑ اور اوراد کے ایسے ایسے اثرات ہیں کہ ان کی حقیقت تک پہنچنے میں عقلیں قاصر ہیں۔ اور امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں دم جھاڑ میں پھونک مارنے اور اس کے اسرار پر ایک لمبی بحث کی ہے اور آخر میں کہتے ہیں کہ "المختصر دم کرنے والے کی طبیعت ان خبیث نفوس کے مقابل میں آ جاتی ہے اور برے اثرات کے زائل کرنے میں پڑھنے والے کی طبیعت،اس کے دم اور لعاب سے بڑی مدد ملتی ہے اور پڑھنے والے کا اپنے دم اور لعاب سے مدد لینا بالکل اسی طرح ہے جیسے کوئی بدطبع اشیاء اپنے ڈنک سے بیمار کر دیتی ہیں۔اور اس پھونکنے میں ایک سریہ بھی ہے کہ پاک یا خبیث طبیعتیں اس سے مدد لیا کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جادو گر بھی وہی کچھ کرتے ہیں جو اہل ایمان کرتے ہیں۔الخ"
[1] صحيح البخاري ،كتاب فضائل القرآن،باب فضل المعوذات،حديث 4729 [2] صحيح مسلم،كتاب السلام،باب جواز اخذ الاجرة على الرقية۔۔۔،حديث 2201 [3] صحيح البخاري ،كتاب الطب،باب رقية النبى صلى اللّٰه عليه وسلم،حديث 5413 [4] شرح النووى على مسلم:7؍332،حديث 4065