کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 113
((مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ،فَهُوَ رَدٌّ)) [1] "جس نے ہمارے اس معاملہ دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔" جبکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا فهو رَدٌّ)) [2] "جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا حکم اور تلقین نہ ہو تو وہ مردود ہے۔" اگر لوگوں کا مقصد میلاد النبی منانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھنا ہے تو یہ مقاصد اس ناپسندیدہ بدعت کے بغیر بھی حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ یہ بدعت اپنے جلو میں بہت سے مفاسد کے علاوہ کئی فواحش و منکرات بھی لیے ہوئے ہے۔اللہ عزوجل نے اپنے پیغمبر علیہ السلام کے متعلق خود ہی فرما دیا ہے کہ: وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴿٤﴾"ہم نے آپ کا ذکر بہت بلند کر دیا ہے۔" چنانچہ اذان،اقامت،خطبہ،نماز میں تشہد اور درود و سلام اور جہاں بھی آپ کا نام نامی سنائی دے آپ کے لیے درود و سلام پڑھنے کا حکم ہے،ان کے ذریعے سے آپ کا ذکر ہر وقت بلند ہر رہا ہے۔صحیح حدیث میں ہے،آپ نے فرمایا: "بہت بڑا بخیل ہے وہ آدمی،جس کے سامنے میرا ذکر ہو اور پھر وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔" [3] آپ علیہ السلام کی تعظیم اس بات میں ہے کہ آپ کی تعلیمات اور آپ کی سنتوں پر عمل کیا جائے،آپ نے جو خبریں دی ہیں ان کی تصدیق کی جائے،جن باتوں سے آپ نے منع فرمایا ہے ان سے باز رہا جائے،عبادت اس طرح کی جائے جیسے کہ آپ کا طریقہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے بہت بالا ہیں کہ سال کے آخر میں صرف ایک بار آپ کا ذکر ہو۔ اگر میلاد کی یہ محفلیں کوئی نیکی کا کام ہوتیں یا ان کا برپا کرنا راجح اور افضل ہی ہوتا تو ہمارے سلف صالحین اس نیکی کے ہم سے کہیں بڑھ کر تھے۔نیکی میں ان کی حرص انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔
[1] صحيح بخاري ،كتاب الصلح ،حديث:2550۔ صحيح مسلم،كتاب الاقضیہ ،حديث:1718 [2] صحيح مسلم،كتاب الاقضية،باب نقض الاحكام الباطلة۔۔۔،حديث:1718۔ مسند احمد:6؍180 حديث 25511 [3] سنن ترمذى،كتاب الدعوات،باب قول رسول اللّٰه رغم انف رجل،حديث 3546 صحيح۔ مسند احمد بن حنبل:1؍201،حديث 1736،اسناده قوى