کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 109
جس کے ذریعے سے کسی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے حالانکہ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔دور جاہلیت میں کچھ لوگوں کا یہ فن اور کسب تھا۔شیطانوں کا ان لوگوں سے رابطہ ہوتا تھا۔شیطان آسمان سے کوئی کلمہ چوری چھپے سن لیتے تو ان لوگوں کو بتا دیتے اور پھر وہ اس کے ساتھ اور بہت کچھ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے تھے۔اگر کوئی بات ان کے کہنے کے مطابق ہو جاتی تو لوگ ان کے بھرے میں آ جاتے اور اپنے معاملات میں ان کو حکم اور قاضی بنا لیتے تھے اور مستقبل کے امور میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے۔اسی وجہ سے کاہن کی تعریف ہم یہ کرتے ہیں کہ "وہ شخص جو مستقبل میں ہونے والے غیب کی خبریں بتائے۔"[1] اور کاہن کے پاس آنے والے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: 1۔کوئی شخص کاہن کے پاس جائے اور اس سے کچھ سوال بھی کرے،بغیر اس کے کہ اس کی کسی طرح کوئی تصدیق کرے۔یہ ناجائز اور حرام ہے،اور ایسا کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے۔جیسے کہ صحیح مسلم میں آیا ہے:((مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ،لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاةٌ أَرْبِعِينَ لَيْلَةً )) [2] ’’جو شخص کسی عراف (غیب کی باتیں بنانے والے) کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا تو اس کی چالیس دن یا چالیس رات کی نمازیں قبول نہیں کی جاتی ہیں۔‘‘ 2۔دوسری صورت یہ ہے کہ کاہن کے پاس آئے،اس سے سوال کرے اور اس کی تصدیق بھی کرے،تو یہ کفر ہے۔کیونکہ اس نے اس کے دعویٰ علم غیب کی تصدیق کی ہے اور کسی انسان کی اس طرح سے تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب ہے: ﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللّٰهُ ﴾(النمل 27؍65) "کہہ دیجیے کہ زمین و آسمان میں غیب اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ہے۔" یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے کہ: ((مَنْ أَتَى كَاهِنًا،فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ،فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ)) [3] "جو شخص کسی کاہن کے پاس آئے اور اس کے کہے کی تصدیق کرے تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل
[1] مترجم عرض کرتا ہے کہ اس کا حکم یہ ہے کہ یہ کام حرام اور ناجائز ہے بالخصوص جنوں اور شیطانوں کا کسی انسان کے تابع ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ کوئی ان کی مرضی کا حرام کام نہ کرے مثلا ان کے نام پر ذبح،ان کے نام کی پکار لگانا اور استغاثہ کرنا یا نماز چھوڑ دینا،یا نجاست سے آلودہ رہنا یا نجاست کھانا وغیرہ ہیں جیسے کہ گذشتہ صفحات میں علامہ عبداللہ جبرین حفظہ اللہ کے فتویٰ کے شروع میں بیان ہوا ہے۔ اور یہ سب کفریہ کام ہیں۔ [2] صحيح مسلم،كتاب السلام،باب تحريم الكهانة ۔۔۔ حديث:4430 [3] مسند احمد بن حنبل:2؍429،حديث:9532