کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 107
پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔" اور فرمایا: أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ ۗ أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ﴿٦٢(النمل 27؍62) "بھلا کون پہنچتا ہے بے بس کی پکار کو جب اس کو پکارتا ہے اور دور کر دیتا ہے سختی،اور تم کو زمین میں پہلوں کا نائب بناتا ہے،کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے اللہ کے ساتھ؟ بہت کم دھیان کرتے ہو۔" اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس عورت کے بارے میں جو جادو کرتی ہے اور بہت لوگوں نے اس سے مصیبت اٹھائی ہے،اس کے بارے میں کیا کیا جائے اور اس کے جادو سے کیسے بچا جائے۔۔؟ جواب:جادو ایک شیطانی عمل ہے۔جادوگر شیطان کے لیے جانور ذبح کر کے یا اس کا استغاثہ اور اسے پکار کر یا نماز چھوڑ کر یا نجاست وغیرہ کھا کر اس کا قرب حاصل کرتا ہے۔تب شیطان اور سرکش جن اس جادوگر کا کام کرتے ہیں،جسے وہ چاہتا ہے باؤلا کر دیتے ہیں،قتل کر ڈالتے ہیں،یا کسی کے کاموں میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں یا مرد کو بیوی کے قابل نہیں رہنے دیتے یا دلوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی وجہ سے جادوگر مشرک اور کافر ہے کیونکہ وہ اِن کفریہ اعمال کے ذریعے سے غیراللہ کا تقرب حاصل کرتا ہے،اور یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ایسے آدمی کو قتل کر دینے کا حکم ہے۔سیدنا عمر بن خطاب،ان کی صاحبزادی سیدہ حفصہ اور حضرت جندب رضی اللہ عنہم سے یہ حکم منقول ہوا ہے۔[1] ان وجوہات کی بنا پر جو ہم نے اوپر بیان کیں اس عورت کی جو جادوگری کے کاموں میں مشہور ہے،اس حالت پر چھوڑے رکھنا جائز نہیں۔اگر آپ لوگوں کے پاس کافی دلائل اور شواہد ہوں تو ضروری ہے کہ اس کا معاملہ اور اس کے ذریعے سے پھیلنے والے ضرر و فساد کا مقدمہ شرعی عدالت میں پیش کریں تاکہ اسے قتل کیا جائے اور لوگ اس کے شر و فساد سے محفوظ رہ سکیں اور اس گھرانے کا ذمہ دار کا فریضہ ہے کہ اس عورت کے ذریعے سے پھیلنے والے نقصانات کا ازالہ کرے،وہ عورت خواہ اس کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ یہ کام اللہ کے ساتھ کفر ہے،اللہ کی مخلوق کو نقصان پہنچانا ہے۔اور جب یہ قتل ہو گئی تو دوسروں کو تنبیہ ہو جائے گی اور پھر وہ بھی اس قسم کے شیطانی کام سے دور رہیں گے۔اور اگر دوسرے اس صورت حال کے بدلنے پر آمادہ نہ ہوں اور اس بڑھیا پر راضی اور اسے اس کے حال پر چھوڑے رکھنا چاہتے ہوں تو سائل اس کا ذمہ دار ہے،آپ کو چاہیے کہ ہر طرح
[1] دیکھیے:سنن ترمذى،كتاب الحدود،باب حد الساحر،حديث:1460۔ المستدرك للحاكم،4؍401،حديث:8073،صحيح۔