کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 104
نکل جائے،اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہیں فرماتا۔جیسے کہ قسموں کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ (المائدہ 5؍89) "اللہ تعالیٰ تمہاری بے ارادہ لغو قسموں میں تمہارا مؤاخذہ نہیں فرماتا ہے لیکن ان کا مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے بولی ہوں۔" تو جب انتہائی غضب کی حالت میں اس نے کوئی کفریہ بات کی ہے اور اسے اپنی حالت کا کوئی علم ہی نہیں تو اس کی بات کا کوئی حکم نہیں ہے اور نہ اس پر مرتد ہونے کا حکم لگ سکتا ہے تو اس وجہ سے اس کا نکاح بھی فسخ نہیں ہوا ہے اور وہ عورت اس کے عقد میں علیٰ حالہا باقی ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان کو جب اپنے غیظ و غضب کا احساس ہو جائے تو فورا اس کے ازالے کی کوشش کرے،جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت اور وصیت معلوم ہے کہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے تو آپ نے فرمایا:"غصے نہ ہوا کر۔" اس نے بار بار سوال کیا تو آپ نے بھی ہر بار یہی جواب فرمایا کہ "غصے نہ ہوا کر۔" [1] الغرض انسان کو چاہیے کہ اپنی طبیعت پر قابو رکھے اور شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرے۔اگر اس کیفیت میں کھڑا ہو تو بیٹھ جائے،بیٹھا ہو تو لیٹ جائے۔اگر غصہ زیادہ ہی ہو تو وضو کرے،اس طرح سے ان شاءاللہ اس کا غصہ جاتا رہے گا۔کتنے ہی لوگوں کے واقعات ہیں کہ شدتِ غضب میں کچھ کر بیٹھتے ہیں کہ بعد میں انہیں اس پر بڑی پشیمانی ہوتی ہے،مگر وقت گزر جانے کے بعد!! (محمد بن صالح عثیمین) سوال:اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی سنت کا ٹھٹھا مذاق اڑانے کا کیا حکم ہے؟ جواب:اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول یا آپ کی سنت کا مذاق اڑانا کفر اور ارتداد ہے۔اس سے انسان دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ﴿٦٥﴾لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ (التوبہ 9؍65۔66) "اے پیغمبر اگر آپ ان منافقوں سے سوال کریں تو یہ لوگ بالضرور یہی کہیں گے کہ ہم تو بس ہنسی کھیل کر رہے تھے،کہیئےکہ کیا بھلا تم اللہ اور اس کے رسول سے ٹھٹھا مذاق کرتے ہو؟ (تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو)۔" تو ہر ایسے آدمی پر واجب ہے کہ جس سے یہ قصور سرزد ہو وہ فورا اللہ کے حضور توبہ کرے۔اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔جیسے کہ منافقین کے اس گروہ کے متعلق کہا گیا جنہوں نے ٹھٹھا مذاق کیا تھا:
[1] صحيح البخارى،كتاب الادب،باب الحذر من الغضب،حديث 5765