کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 103
3۔ اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر اصرار نہ کرے۔اگر وہ کوئی فریضہ چھوڑ بیٹھا تھا تو اسے اپنے عمل میں لے آئے اور تلافی مافات کی کوشش کرے۔اگر کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہو تو اسے بالکل چھوڑ دے،اگر غلطی کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو ان کا حق ادا کر دے یا حق والے سے معاف کروا لے۔ 4۔ یہ عزم کرے کہ آئندہ اس کا اعادہ نہیں کرے گا۔ 5۔ یہ توبہ بھی قبولیت کے وقت میں کرے۔اگر اس موقعہ کے بعد کرے گا تو قبول نہ ہو گی۔قبولیت توبہ کا موقعہ ضائع ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ایک عام اور ایک خاص۔ عام یہ ہے کہ جب قیامت قریب آ جائے گی اور سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہو گا تو اس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اور پھر کسی کی توبہ قبول نہ ہو گی،جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا(الانعام 6؍158) "جس روز تیرے رب کی کوئی بڑی نشانی آ پہنچے گی تو کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا تھا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔" اور خاص یہ ہے کہ کسی کا وقت آخر آ پہنچے۔جب کسی کے لیے اس کی موت کی علامات شروع ہو جائیں تو اس وقت توبہ اس کے لیے غیر مفید ہے۔جیسے کہ اللہ نے فرمایا: وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا﴿١٨﴾(النساء 4؍18) "ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے توبہ کی،اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر ہی پر مر جائیں۔" انسان جب کسی گناہ سے توبہ کر لے خواہ دین کو گالی ہی دے بیٹھے تو اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے بشرطیکہ مذکورہ بالا شروط پر پوری اترتی ہو اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ بعض اوقات انسان کی زبان سے کوئی کفریہ کلمہ نکل جاتا ہے مگر اس آدمی کو کافر نہیں کہا جاتا،کیونکہ اس میں کوئی ایسا مانع ہوتا ہے جو اس پر کافر ہونے کے حکم سے رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ شخص جس کے متعلق پوچھا گیا ہے کہ اس نے غصے کی حالت میں دین اسلام کو گالی دی ہے تو اگر اس کا غصہ اتنا شدید تھا کہ اسے خبر ہی نہیں تھی کہ کیا کہہ رہا ہے یا اسے معلوم ہی نہ تھا کہ وہ کہاں ہے زمین پر یا آسمان پر،اور جو بولا وہ اسے یاد ہی نہیں تو ایسی حالت گفتگو کا کوئی حکم نہیں ہے اور نہ اس پر مرتد ہونے کا حکم لگ سکتا ہے،کیونکہ یہ سب کچھ بلا ارادہ ہوا ہے اور جو بات بلا ارادہ اور بلا نیت زبان سے