کتاب: احکام و مسائل خواتین کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 102
اندر بیان ہوتی ہیں۔اور لوگوں کی صورتِ حال واقعیہ بھی ایسی ہی ہے۔اس اصول و قاعدہ کے دلائل قرآن و سنت کے اندر بہت زیادہ ہیں۔واللہ اعلم (عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی) سوال:اگر کوئی شخص غصے کی حالت میں دین کو گالی دے یا برا بھلا کہے ۔۔تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس پر کوئی کفارہ وغیرہ ہے،اس عمل سے توبہ کی کیا شرط ہے،اور کیا اس سے اس کا نکاح تو نہیں ٹوٹ جاتا ہے؟ جواب:دین اسلام کو گالی بکنا کفر ہے۔دین کو گالی دینے یا اس کے ساتھ ٹھٹھا مذاق سے انسان مرتد ہو جاتا ہے۔یہ اللہ اور اس کے دین کے ساتھ کفر ہے۔اللہ عزوجل نے کچھ لوگوں کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ "ہم تو بس ہنسی کھیل میں تھے۔" تو اللہ نے فرمایا کہ ان کا ایسی باتوں میں مشغول ہونا اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ،اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ٹھٹھا و مذاق کرنے سے یہ کافر ہو چکے ہیں۔سورۃ التوبہ میں ہے: وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ﴿٦٥﴾لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ(التوبہ 9؍65۔66) "اگر آپ ان منافقین سے دریافت کریں تو یہ کہیں گے کہ ہم تو بس ہنسی کھیل کر رہے تھے،آپ ان سے کہیے کہ کیا بھلا تم اللہ،اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ٹھٹھا کرتے ہو،بہانے مت بناؤ،تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔" الغرض!یہ کام انسان کو ملت اسلام سے نکال دینے والے ہیں،تاہم اگر بندہ ان سے توبہ کرے تو اس کا موقع حاصل ہے۔فرمایا: قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚإِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴿٥٣(الزمر 39؍53) ان سے کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے،اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو جاؤ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے،بلاشبہ وہ بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔" اگر انسان توبہ کرے خواہ کسی طرح کے ارتداد کا مرتکب ہوا ہو اور سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے۔توبہ کرنے کی پانچ شرطیں ہیں: 1۔ اخلاص:یعنی یہ عمل صرف اللہ کی رضا مندی کے لیے کرے اس میں کسی ریا اور دکھلاوے کی بات نہ ہو،مخلوق کے ڈر سے نہ کرے،یا کسی دنیاوی لالچ کی بنا پر نہ کرے۔جب بندے کی توبہ ان جذبات سے ہو تو وہ خاص اللہ کے لیے کہلاتی ہے۔ 2۔ ندامت:یعنی جو گناہ سرزد ہوا ہو بندہ اپنی طبیعت میں اس پر ازحد نادم ہو اور جو ہوا ہو اس کو بہت بھاری سمجھے اور جلد از جلد اس کے وبال سے چھٹکارا پانا چاہتا ہو۔