کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 96
اطاعت پر راضی کر کے ہو سکتی ہے یا پھر بزورِ شمشیر مجبور کر کے، لہٰذا جس بھی طریقے سے وہ لوگوں پر حکمرانی کرنے لگے تو اس کی اطاعت لازمی ہے؛ بشرطیکہ وہ اللہ کی اطاعت کا حکم دے۔
یہی وجہ ہے کہ امام احمد نے عبدوس بن مالک العطار کے رسالے میں کہا: ہمارے ہاں عقیدے کا بنیادی مسئلہ ہے کہ ہم اسی منہج کو اپنائیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا منہج تھا، یہاں تک کہ انہوں نے کہا: اگر کوئی مسند خلافت پر براجمان ہو اور تمام لوگ اس کے خلیفہ ہونے کو تسلیم کر لیں،اسی طرح جو شخص بزورِ شمشیر خلیفہ بنے اور اسے امیر المؤمنین کا لقب مل جائے،تو اسی کے تحت بیت المال میں زکاۃ جمع کروانا جائز ہے چاہے وہ خود نیک ہو یا فاجر ۔
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ: اسحاق بن منصور کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے: (جو شخص فوت ہو جائے اور اس کا کوئی حکمران نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا) اس کا کیا معنی ہے؟
تو انہوں نے کہا: جانتے ہو حکمران کون ہے؟ حکمران وہ ہے جس کو سب مسلمان حاکم تسلیم کریں،سب کے سب یہ کہیں کہ : یہ ہمارا حکمران ہے،یہ ہے اس حدیث کا مفہوم"[1]
٭٭٭
[1] منہاج السنہ (1؍527)