کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 95
رکھتے ہوں،معدوم،مجہول اور ایسے شخص کی اطاعت کرنے کا حکم نہیں دیا جن کے پاس کسی قسم کی کوئی طاقت و قوت نہ ہو"[1] ایک اور جگہ انتہائی نفیس گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں : "انسان اسی وقت حکمران بنتا ہے جب خطے کے سرکردہ لوگ اسے اپنا حکمران تسلیم کر لیں،اگر وہ اطاعت گزاری میں آ جائیں تو حکمران بننے کا مقصد اور ہدف پورا ہوتا ہے؛ کیونکہ حکمران بنانے کا مقصد ہی اس وقت پورا ہو گا جب ہاتھ میں قوت اور سلطانی ہو گی، لہٰذا اگر کسی آدمی کی ایسے لوگ بیعت کریں جن کی وجہ سے اسے قوت اور سلطانی مل جائے تو وہ شرعی حکمران بن جائے گا، اسی لیے سلف صالحین نے کا کہنا ہے کہ: جس شخص کے ہاتھ میں قوت اور سلطانی آ جائے اور وہ حکمرانی کے تمام تقاضے پورے کرنے لگے تو وہ ان لوگوں میں شامل ہے جن کی اطاعت کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے بشرطیکہ کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں ۔ لہٰذا امام اور حکمران صاحب سلطنت اور بادشاہت ہوتا ہے، اور انسان ایک دو اور چار افراد کے تسلیم کرنے سے نہیں بنتا،ہاں اگر یہ دو چار افراد ایسی با اثر شخصیتوں پر مشتمل ہوں کہ دیگر افراد بھی ان کی موافقت کریں گے تو پھر وہ بادشاہ بن جائے گا" آگے چل کر مزید لکھتے ہیں : "اگر کوئی شخص امیر، قاضی یا والی یا حکمران بنے تو وہ اسی وقت بنے گا جب اس کے تقاضے پورے ہوں گے اور اگر اس کے تقاضے پورے نہیں تو وہ امیر یا والی کچھ بھی نہیں ؛ کیونکہ حکمران بننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو کام حاکم نے کرنے ہیں وہ کام ہونے لگ جائیں،اگر کسی شخص کے پاس اتنی قوت اور طاقت ہے جس کی بنا پر یہ کام ہو سکتے ہیں تو وہ حاکم ہے۔۔۔ لوگوں پر حکمرانی یا تو انہیں اپنی
[1] منہاج السنہ (1؍115)