کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 94
تو یہاں پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات واضح کر دی کہ جو شخص بزور طاقت غالب آ جائے اور زمام حکمرانی اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کی اطاعت کرنا واجب ہو جاتا ہے، اس سے حکمرانی چھیننے کے لیے کوشش کرنا حرام ہے چاہے حکمران بننے والا شخص کسی کا غلام ہی کیوں نہ ہو۔ امام احمد رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں : "حکمران اور امیر المؤمنین نیک ہو یا بد کار لوگ اس کی فرمانبرداری لازمی ہے، اسی طرح جو خلیفہ بن گیا ہے اور لوگوں نے اس پر اظہار اعتماد کر دیا ہے اس کی بھی اطاعت لازمی ہے، اور جو بزورِ شمشیر خلیفہ بن گیا اور اسے لوگوں نے امیر المؤمنین کا لقب دیا گیا تو اس کی اطاعت بھی لازمی ہے۔"[1] ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں : "تمام فقہائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جو حاکم بزور شمشیر زمام حکومت سنبھالے تو اس کی اطاعت کرنا اس کی قیادت میں جہاد کرنا واجب ہے، نیز ایسے حاکم کی اطاعت اس کے خلاف بغاوت کرنے سے کہیں بہتر ہے؛ کیونکہ اس طرح سے لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں گی اور انتشار یا بے چینی نہیں پھیلے گی"[2] اس کے متعلق اہل علم کی گفتگو بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ایسا امام اور حکمران بنانے کو نہ تو شریعت جائز سمجھتی ہے اور نہ ہی عقل اس کی گنجائش نکالتی ہے کہ اس کی بیعت تو ہو لیکن ان کے پاس کوئی طاقت و قوت نہ ہو۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے حکمرانوں کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے جن کا حقیقت میں وجود بھی ہو اور مشہور و معروف بھی ہوں وہ لوگوں پر سیاست کی طاقت بھی
[1] شرح اصول الاعتقاد از لالکائی (1؍161) [2] فتح الباری (3؍7)