کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 93
خاتمہ ہو، جارحیت کرنے والوں کو آہنی ہاتھوں سے روکیں،مظلوم کی مدد ہو،حکمران بنانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مفادِ عامہ میں آنے والے تمام امور بہترین اور منظم انداز میں پروان چڑھیں "[1]
مذکورہ بالا تمام امور سر انجام دینے کے لیے حکمران کے پاس اتنی طاقت یا تو اہل حل و عقد -یعنی معاشرے کے با اثر اور سر کردہ افراد-کے بیعت کرنے سے آتی ہے،یعنی ان کی بیعت کر لینے کے بعد کسی کے پاس بیعت توڑنے کا جواز باقی نہیں رہ جاتا۔
یا پھر حکمران کے غلبے اور زورِ بازو کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے چاہے لوگ اسے ناپسند بھی کریں ؛ کیونکہ معاملات کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں آ چکی ہے اس کے فیصلے مانے جا رہے ہیں اور نئے احکامات جاری ہو رہے ہیں اور یہی حکمران بننے کے مقاصد ہوتے ہیں،نیز اب کسی میں بزورِ شمشیر تخت نشین ہونے کی جرأت نہیں ہے تو اس سے غاصب کو بھی حکمران مان لیا جائے گا، یہی ساری امت کا اجماعی موقف ہے۔
چنانچہ عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے: (ہمیں ایک دن فجر کی نماز کے بعد بلیغ ترین وعظ فرمایا،اس کی وجہ سے ہر آنکھ اشکبار ہو گئی اور دل پگھل گئے، اس پر ایک شخص نے کہہ دیا: یہ تو الوداعی خطاب لگتا ہے، اللہ کے رسول! آپ ہمیں کیا نصیحت کریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر تم پر کوئی حبشی غلام بھی حاکم بن جائے تو میں تمہیں تقوی الہٰی اور سمع و اطاعت کی نصیحت کرتا ہوں،میرے بعد جو بھی زندہ رہے گا بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا، تم اپنے آپ کو نت نئے امور سے بچانا کیونکہ وہ سب گمراہی ہیں،اگر تم میں سے کوئی اختلافات کا زمانہ پائے تو میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل پیرا رہے، اسے پر مضبوطی سے ڈٹ کر عمل کرے) [2]
[1] دیکھیں : الایضاح في أصول الدين (601)
[2] ترمذی (5؍44) اور دیگر محدثین نے اسے روایت کیا ہے، امام ترمذی نے اسے بیان کرنے کے بعد حسن صحیح قرار دیا اور البانی نے اسے صحیح ابو داؤد (3851) میں صحیح کہا ہے۔