کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 92
تیسرا مبحث: اہل سنت کے ہاں شرعی حکمران کون ہوتا ہے؟ شرعی حکمران اور امام کون ہوتا ہے؟ یہ ایک اہم اور حساس موضوع بن چکا ہے، اس کی وضاحت انتہائی ضروری ہو چکی ہے؛ کیونکہ بدعتی لوگوں نے اس کے بارے میں بہت زیادہ پیچیدگیاں کھڑی کر دی ہیں ؛ اس لیے کہ بہت سی جماعتیں ایسی موجود ہیں جو اپنا خاص امام بنائے ہوئے ہیں جس سے حکمرانی کے مقاصد اور اہداف پورے نہیں ہوتے بلکہ اس میں اس قسم کی کوئی صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ اسے حکمران کہا جائے۔[1] تو یہ ایک بری روایت قائم ہو چکی ہے جو کہ رافضیوں کی عادت کے مطابق ہے وہی اپنا امام مقرر کرتے ہیں جس کے وجود کا بھی رافضیوں کا علم نہیں ہوتا۔[2] تو اہل سنت کے ہاں شرعی حکمران وہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حکمرانی کے مقاصد اور اہداف حاصل ہوں،اور یہ وہی شخص ہو سکتا ہے جو لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کر سکے، اپنے احکام نافذ کرنے کی اس میں صلاحیت موجود ہو، رعایا کے مفاد میں کام کرے اور اس کے علاوہ حکومتی ذمہ داریاں نبھائے۔ابو حسن ابن زاغوانی کہتے ہیں : "حکمران اس لیے بنایا جاتا ہے کہ: قانون کی بالا دستی ہو، عدل و انصاف کا نظام قائم ہو، ملک و قوم کے معاملات مثبت انداز میں نمٹائے جائیں،سرحدوں کی حفاظت ہو، فوج کی دیکھ بھال اس انداز سے ہو کہ دین کو غلبہ حاصل ہو اور حق بات پھلے اور پھولے، باطل اور کفریہ نظریات چور ہو جائیں،بدعات اور ظلم کا
[1] دیکھیں : الایضاح (601) میں امامت کا بیان [2] جیسے کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے "امام زمانہ " بارہویں امام کے متعلق اور اسی طرح آج کل داعش کے امیر اور امام ابو بکر بغدادی کا معاملہ ہے دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ہی اپنے معتقدین سے دور اور لا تعلق ہیں۔