کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 91
دیگر امور میں استحلال نہیں دیکھا جائے گا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ استحلال کے بارے میں ضابطہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : "استحلال: یہ ہے کہ انسان کسی ایسی چیز کو حلال سمجھے جو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہے۔ جبکہ استحلال عملی طور پر ہو تو دیکھا جائے گا: اگر وہ کام بذات خود کفریہ ہو تو اسے کرنے والا کافر اور مرتد ہو گا[جیسے کہ بت کو سجدہ کرنا وغیرہ]۔ مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص سودی لین دین کرتا ہے، وہ یہ نہیں سمجھتا کہ سودی لین حلال ہے، لیکن پھر بھی سودی لین دین میں ملوث رہتا ہے، تو ایسی صورت میں وہ کافر نہیں ہے؛ کیونکہ وہ سودی لین دین کو حرام ہی سمجھتا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہے کہ سودی لین دین حلال ہے اور اسے مراد یہ لیتا ہے کہ جس سود کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے وہ حلال ہے تو اس پر ایسا شخص کافر ہو جائے گا؛ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو مسترد کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استحلال دو طرح کا ہوتا ہے: استحلال عملی اور استحلال عقدی۔ استحلال عملی میں یہ دیکھا جائے گا کہ کیا وہ عمل بذات خود کفریہ عمل ہے یا نہیں ؟ تو اس سلسلے میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سود کھانے سے انسان کافر نہیں ہوتا اگرچہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، لیکن اگر کوئی شخص بت کو سجدہ کرتا ہے تو اس سے وہ کافر ہو جائے گا، کیوں کافر ہوگا؟ اس لیے کہ بت کو سجدہ کرنا بذات خود کفر ہے۔"[1] ٭٭٭
[1] لقاء الباب المفتوح ، مجلس نمبر: (50) سوال نمبر: (1200)