کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 89
کے سوا اپنا رب بنا لیا [التوبہ: 31] پڑھتے ہوئے سنا،اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اہل کتاب اپنے پادریوں کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن پادری جن چیزوں کو حلال قرار دیتے اسے حلال سمجھتے اور جس چیز کو وہ حرام قرار دیتے اس چیز کو وہ حرام سمجھتے تھے "[1] تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: [اِسْتَحَلُّوْهُ]" یعنی حلال سمجھتے تھے" مطلب یہ ہے کہ وہ پادریوں کی حلال کردہ چیزوں کو حلال سمجھنے کا عقیدہ رکھتے تھے اور اسے دین کا حصہ سمجھتے ؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس عادت کو یہ کہا کہ وہ اپنے پادریوں کو رب کا درجہ دیتے ہیں،اس کی وجہ یہی تھی کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا اللہ تعالیٰ کا حق ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان عیسائیوں کی جانب سے حرام کاموں کو حلال سمجھنا محض عملی گناہ نہیں تھا بلکہ نظریاتی گناہ تھا اور اسی نظریاتی گناہ کی بنا پر وہ کفر اور شرک تک پہنچے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "جن لوگوں نے اپنے پادریوں اور راہبوں کو رب کا درجہ دیتے ہوئے ان کی حلال و حرام کے احکام میں پیروی کی یہ عمل دو طرح ہو سکتا ہے: 1۔انہیں علم ہو کہ پادریوں اور راہبوں کی جانب سے بیان کردہ حکم دینِ الہٰی کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے راہبوں کی بات مانتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کو حلال اور حلال کردہ امور کو حرام جانتے ہیں،حالانکہ انہیں یہ بھی علم تھا کہ یہ امور رسولوں کے لائے ہوئے دین سے متصادم ہیں اس کے باوجود انہوں نے اس پر عمل کیا تو یہ کفر ہے، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اس عمل کو شرک قرار دیا اگرچہ وہ ان کے سامنے رکوع سجدے نہیں کرتے تھے لیکن پھر
[1] اس حدیث کو ترمذی (3095)، سنن کبری بیہقی (10؍198) اور دیگر نے روایت کیا ہے، اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی (2471) میں اسے حسن قرار دیا۔