کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 88
میں اللہ اور اس کے رسول کو گالی دینا شامل نہ ہو۔ اصل میں یہاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان لوگوں پر رد کرنا چاہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو گالی دینے والے پر کفر کا فتوی اسی وقت لگاتے ہیں جب گالی دینے والا استحلال کا قائل ہو، حالانکہ اللہ اور رسول اللہ کو گالی دینے والے کا کفر دلائل سے ثابت ہو چکا ہے اس میں استحلال یا غیر استحلال کی کوئی قید نہیں ہے، بس اتنا ہے کہ گالی دینے والا اپنے اختیار سے گالی دے اس پر کسی نے جبر نہ کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنت و الجماعت گناہگاروں اور معصیت کا ارتکاب کرنے والوں پر محض فعل گناہ کی وجہ سے کفر کا فتوی نہیں لگاتے؛ کیونکہ کسی کام پر عمل اس کے استحلال کی دلیل نہیں بن سکتا، محض فعل گناہ پر کفر کا فتوی خارجی لوگوں کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ١ وَ مَا اُمِرُوْا اِلَّا لِيَعْبُدُوْا اِلٰهًا وَّاحِدًا لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ [التوبہ: 31] ’’ انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ اس کی تفسیر میں عدی بن حاتم کا واقعہ ہے کہ وہ کہتے ہیں : "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا تو میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹکی ہوئی تھی،تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عدی! اپنے گلے میں سے یہ بت اتار دو۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سورت توبہ میں سے یہ آیت ﴿اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ﴾انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ