کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 87
کرے، دل کی بات اسی وقت معلوم ہو گی جب گناہ کو حلال سمجھنے والا شخص خود بیان کرے گا، اور بیان دو انداز سے ہی ہو سکتا ہے:
بول کر: مثلاً یہ کہہ دے کہ یہ چیز حلال ہے۔
لکھ کر: مثلاً اپنا نظریہ اور موقف تحریر میں لے آئے، یا ایسی ہی کوئی بات کرے جس میں کسی قسم کا شائبہ نہ ہو۔
چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"ہم نے پہلے جو احادیث اور آثار ذکر کیے ہیں ان میں واضح دلائل موجود ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تکلیف پہنچانا ہی کفر ہے، اس میں اس بات کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا کہ تکلیف پہنچانے والے کا نظریہ کفریہ تھا یا نہیں ! لہٰذا ہمیں یہاں پر دوبارہ بات دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان دلائل میں واضح بات موجود ہے کہ جو شخص بھی گالی دے یا گستاخی کرے تو وہ کافر ہے، اور اس کے کافر ہونے کی وجہ سے اس کا قتل حلال ہو چکا ہے، اس کی ایک دلیل یہ بھی بنتی ہے کہ اگر قتل حلال ہونے کا سبب یہ نظریہ ہو کہ -نعوذ باللہ-نبی کو گالی دینا حلال ہے، تو اس وقت تک اس شخص کو کافر قرار دینا اور قتل کرنا جائز نہیں ہو گا جب تک یہ نظریہ دلائل سے اتنے ٹھوس انداز سے ثابت نہ ہو جائے جس سے کسی کا قتل کرنا حلال ہو سکتا ہو"[1]
اب یہاں پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دینا اسے حلال سمجھنے کی دلیل شمار نہیں کیا، حالانکہ گالی دینا بہت ہی سنگین اور خطرناک جرم ہے، پھر یہ بھی بتلایا کہ استحلال کا علم اسی وقت ہو گا جب وہ اختیاری طور پر ایسا [اعترافی]کام کرے جس
[1] الصارم المسلول (3؍964)