کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 81
اس کی ایک مثال حدود میں بھی آتی ہے کہ قابل حد گناہ کے تکرار سے سزا میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا، چنانچہ جو شخص کئی بار زنا کر لے اور اس پر زنا کی حد نہ لگی ہو تو اسے ایک بار ہی زنا کی حد لگے گی، زنا کی تعداد نہیں دیکھی جائے گی، یہی عمل دیگر تمام حدود میں لاگو ہو گا؛ کیونکہ حد زنا کے لیے مقرر کی گئی ہے اس کی تعداد کے لیے نہیں،بالکل اسی طرح معاملہ ایسے گناہوں کے ساتھ ہو گا جس کی سزا قتل ہے، ایسے گناہوں کی تعداد یا تکرار کو نہیں دیکھا جائے گا۔ چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "خون رائیگاں قرار دینے والے گناہ کا ارتکاب تعداد کم ہو یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے اس گناہ کی نوعیت سنگین ہو یا معمولی، [اتنا ضروری ہے کہ اس گناہ کے ارتکاب پر خون رائیگاں ہو سکتا ہے] تو اس پر قتل جائز ہو گا، چاہے اس گناہ کا تعلق قول سے ہو یا فعل سے، مثلاً: کوئی مرتد ہو جائے، شادی شدہ شخص زنا کر لے، یا محاربہ [دہشت گردی] میں ملوث ہو یا کوئی اور اسی طرح کا گناہ کر لے، اصولی طور پر یہی قاعدہ کلیہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کچھ اقوال اور افعال ایسے ہیں اگر ان کی مقدار زیادہ ہو تو پھر قتل جائز ہے لیکن اگر معمولی ہو تو قتل جائز نہیں،تو یہ بے بنیاد اور اصولوں سے متصادم بات ہے، یہ بات مستقل طور پر دلیل کی محتاج ہے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس میں کثرت گناہ کی بنا پر قتل کا حکم ہو اور قلت کی بنا پر قتل کرنے کی اجازت نہ ہو"[1] اسی طرح ایک اور مقام پر کہتے ہیں : "حدود کا نفاذ گناہ پر ہوتا ہے گناہ کی مقدار پر نہیں،یہی وجہ ہے کہ تھوڑی یا زیادہ چیز چوری کی جائے حد لاگو ہو گی، شراب نوشی تھوڑی ہو یا زیادہ حد ہر حال
[1] الصارم المسلول (2؍176)