کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 77
"اگر ہمارے پاس حکمران کو ہٹانے کو طاقت ہو اس وقت ہم بغاوت کریں گے اور اگر طاقت نہیں ہے تو ہمیں بغاوت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ؛ کیونکہ تمام کے تمام شرعی احکامات قدرت،طاقت اور استطاعت کے ساتھ منسلک ہیں ۔ پھر اگر ہم بغاوت کر دیں تو بغاوت کرنے پر پہلے سے بھی زیادہ نقصانات اور فساد پھیل سکتا ہے، کیونکہ اگر بغاوت کے بعد بھی تسلط حکمران کے پاس ہی رہتا ہے تو ہمیں پہلے سے زیادہ ذلت برداشت کرنی پڑے گی اور حکمران پہلے سے بڑا سرپھرا اور کافر بن جائے گا۔ تو ان مسائل کے لیے خوب سوچ و بچار کی ضرورت ہوتی ہے، شرعی احکام کو عقل سے جوڑیں،ان امور میں جذبات سے کام مت لیں،کسی بھی کام کے لیے ابھارنے پر ہمیں جذبات کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح عقل و شریعت کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں ہمیں یہ جذبات تباہی تک نہ پہنچا دیں "[1] اس مسئلے کے متعلق اہل علم کی سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ برائی کے خاتمے کے لیے عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ برائی سے روکنے پر موجودہ خرابیوں سے زیادہ خرابیاں پیدا نہیں ہوں گی، لیکن حقیقت ایسے نہیں ہے چنانچہ محض سمجھنا ہی کافی نہیں بلکہ یقین ہونا ضروری امر ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ برائی سے روکنے والا اگر نتائج سے نابلد ہو تو معاملات مزید بگڑ جاتے ہیں ؛ چنانچہ پہلے سے زیادہ خرابیاں رونما ہوتی ہیں،خصوصی طور اگر برائی کا تعلق حکمران کی ذات سے ہو اور برائی ختم کرنے کا انداز بغاوت اپنایا جائے تو اس سے معصوم جانیں ضائع ہوتی ہیں،خون خرابہ ہوتا ہے اور انتشار پھیلتا ہے۔ اسی طرح اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ پہلے جتنی بھی خروج اور بغاوت کی
[1] لقاء الباب المفتوح : 51 سوال نمبر: (1222)