کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 76
پاس حکمران کو ہٹا نے کی طاقت ہو، لیکن اگر قوت نہ ہو تو پھر بغاوت جائز نہیں ہے، یا پھر قوت تو ہو لیکن بغاوت کی بنا پر نقصانات پہلے سے بھی زیادہ ہوں تو مفادِ عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے بغاوت کرنا جائز نہیں ہے۔
یہ ایک شرعی قاعدہ ہے جس پر تمام کا اجماع ہے کہ: کسی چھوٹی برائی کا خاتمہ بڑی برائی سے کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ برائی کو جڑ سے اکھاڑنا یا اس کے اثرات کم سے کم کرنا واجب ہے۔
اس لیے کسی چھوٹے شر کو بڑے شر سے ختم کرنا تمام مسلمانوں کے اجماع کے مطابق جائز نہیں ہے، چنانچہ اگر کفر کرنے والے حکمران کو ہٹانے کی کوشش کرنے والا گروہ اتنی طاقت کا حامل ہے کہ حکمران کو ہٹا کر دوسرا اچھا حاکم لا سکتا ہے،نیز اس پورے عمل کے دوران مسلمانوں کو کوئی نقصان اور گزند نہیں پہنچتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اگر بغاوت کرنے سے بہت زیادہ نقصان ہوگا، امن برباد ہو جائے گا، لوگوں پر ظلم ہو گا، معصوم لوگوں کا خون رائیگاں ہو گا تو پھر یہ جائز نہیں ہے، بلکہ اچھے کاموں میں حاکم وقت کی اطاعت اور صبر سے کام لینا واجب ہے، حاکم وقت کی خیر خواہی کریں،ان کے لیے بھلائی کی دعائیں کریں،برائیوں کے خاتمے یا ان میں کمی لانے کے لیے بھر پور کوشش کریں اور مثبت سرگرمیاں عمل میں لائیں ۔
اسی طریقے اور سلیقے کو اپنانا واجب ہے؛ کیونکہ اس سے مسلمانوں کے مفادِ عامہ محفوظ رہیں گے، نیز اس طریقے میں منفی امور کم ہیں جبکہ مثبت امور زیادہ ہیں،نیز اس طرح مسلمانوں کو بڑے نقصان اور خسارے سے تحفظ حاصل ہو گا"[1]
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کافر حکمران کے خلاف بغاوت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں :
[1] مجموع فتاوی ابن باز (8؍203)