کتاب: خوارج کی حقیقت - صفحہ 75
سے روکا ہے کہ اس پر اس سے بھی بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے کہ وہ -نعوذ باللہ- اللہ تعالیٰ کو بد زبانی کا نشانہ بنائیں گے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے کہ اگر کسی برائی کو روکنے کی وجہ سے مسلمانوں کا نقصان ہو تو اس برائی کو روکنے کے لیے مسلمانوں کی اجازت ضروری ہے، لہٰذا اگر مسلمان اس کی اجازت نہ دیں اور اسے پسند نہ کریں تو پھر ایسی صورت میں برائی کو روکنا در حقیقت مسلمانوں کو تکلیف دینے اور ان پر زیادتی کے مترادف ہو گا۔ چنانچہ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں : "عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ: "ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم خوش ہوں یا ناراض،آسانی ہو یا تنگی، یا ہم پر کسی اور کو ترجیح بھی دی جا رہی ہو تب بھی ہم آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے، نیز حکمرانوں سے قیادت چھیننے کی کوشش بھی نہیں کریں گے، الا کہ ہم بالکل واضح طور پر کفر اکبر دیکھ لیں،جس کے بارے میں ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے دلیل ہو"[1] یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکمرانوں سے قیادت چھیننے کی کوشش یا ان کے خلاف بغاوت اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک واضح کفر نہ دیکھ لیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیل ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے سنگین قسم کے نقصانات ہوتے ہیں،امن و امان ختم ہو جاتا ہے، حقوق پامال ہوتے ہیں،بغاوت میں ظالموں کو روکنا ممکن نہیں رہتا ہے اور نہ ہی مظلوم کی مدد ہو سکتی ہے، راستے پر امن نہیں رہتے، حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے سے عظیم فساد اور شر بپا ہوتا ہے، البتہ اگر مسلمانوں کو حکمران میں صریح کفر نظر آئے جس کے بارے میں ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل ہو تو پھر ایسے حکمران کے خلاف بغاوت اس وقت جائز ہے جب ان کے
[1] یہ مکمل حدیث صفحہ نمبر: (22) پر دیکھیں۔